’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا: اللہ کے لیے اخلاص عمل،حکام و امراء کی خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا،کیونکہ ان کی دُعا انھیں ان کے پیچھے سے گھیرے ہوتی ہے۔‘‘
اخلاص مسلمان کے عمل کی روح اور اس کی سب سے اہم خوبی ہے،اخلاص کے بغیر اس کی ساری کوشش و کارکردگی بکھرے ہوئے ذرات کی مانند ہے۔
ائمہ اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اخلاص دل کے اہم ترین اعمال میں سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،اللہ پر توکل و اعتماد،اس کے لیے اخلاص،اس سے ڈرنے اور اُمید وابستہ کرنے کے لیے دل کے اعمال ہی اصل اور بنیاد ہیں اور اعضا و جوارح کے اعمال اس کے تابع ہوتے ہیں کیونکہ نیت کی حیثیت روح کی اور عمل کی حیثیت اعضائے جسمانی کی ہے کہ جب جسم کا رشتہ روح سے ٹوٹتا ہے تو وہ مرجاتا ہے،چنانچہ دلوں کے احکام کی معرفت اعضا و جوارح کے احکام کی معرفت سے زیادہ اہم ہے۔
لہٰذا مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ عزوجل کے لیے مخلص ہو،وہ ریا و نمود اور لوگوں کی مدح وستائش کی خواہش نہ کرے،بلکہ محض اللہ عزوجل کی ذات کا ارادہ کرے،اسی کی خوشنودی کے لیے نیک اعمال انجام دے اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے،جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ﴾ [یوسف:۱۰۸]
’’ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔‘‘
نیز ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ ﴾ [حٰمٓ السجدۃ:۳۳]
’’ اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہو۔‘‘
اخلاص تمام مسلمانوں پر واجب ہونے والا سب سے عظیم وصف (خوبی) ہے،تاکہ وہ اپنی دعوت و عمل سے محض ذاتِ الٰہی اور دارِ آخرت (جنت) کے طلب گار اور لوگوں کی اصلاح
|