گناہ کے بے شک تمہارا رب بہت وسیع مغفرت والا ہے ۔‘‘
۳۔ تیسرا درجہ : جو توبہ کرتے ہیں اور ایک مدت تو استقامت کے ساتھ رہتے ہیں ، مگر پھر بعض گناہوں میں شہوت اس پر غالب آجاتی ہے،اور وہ غلبہ شہوت اور اپنے نفس کی عاجزی کی وجہ سے ان گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے مگر اس کے ساتھ وہ اطاعت کے کام بھی باقاعدگی سے کرتا ہے۔ اور جملہ گناہ قدرت اور شہوت کے باوجود ترک بھی کردیتا ہے۔ بس صرف ایک شہوت یا دو اس پر غالب آتی ہیں ۔ وہ یہ چاہتا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس پر غلبہ کی قدرت دے تو وہ اس کو ختم کردے اور اس کے شر سے نجات پالے۔ جب شہوت اور گناہ کا دور ختم ہوجاتا ہے ، اسے اپنے کیے پر ندامت ہوتی ہے۔ مگر وہ اس گناہ سے توبہ نہیں کرتا۔ اس نفس کومسئولہ، یعنی جواب دہندہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اور ایسے انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحاً وَاٰخَرَ سَیِّئاً عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبہ:۱۰۲)
’’ اور دوسرے کچھ وہ لوگ ہیں جو اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہیں ؛ جنہوں نے ملے جلے عمل کیے ،کچھ بھلے اورکچھ برے ؛ اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے، بے شک وہ بہت مغفرت والا اوربڑی رحمت والا ہے۔‘‘
اس انسان کا معاملہ اطاعت کے کام باقاعدگی سے کرنے اور ساتھ ساتھ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر رحمت کی امید کے ساتھ معلق ہے چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْْہِمْ ﴾ (التوبۃ:۱۰۲)
’’ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے۔‘‘
لیکن توبہ میں تاخیر کی وجہ سے اس کی عاقبت خطرہ میں ہے کیوں کہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ شاید توبہ کا موقع ملنے سے قبل اسے اس دنیا سے اٹھا لیا جائے۔اللہ کے ہاں تو اعتبار آخری عمل کا ہوتا ہے۔
|