رہے تو مجھے تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔‘‘
آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے استغفار کے ضمن میں اپنے ذکر کو بھی بیان کیا ہے۔
استغفار کی انتہائی اہمیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے انبیاء کرام اور صالحین عظام کی صفت قرار دیا تھا۔ اور یہ ان کی دعوت کا ایک حصہ رہا ہے ، انبیاء نہ صرف یہ کہ خود کثرت سے استغفار کرتے تھے بلکہ لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلآئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْْکَ الْمَصِیْرُ﴾ (البقرہ: ۲۸۵)
’’رسول (اللہ) اس کتاب پر جو اُن کے رب کی طرف سے اُن پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب اللہ پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں پر اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اُس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے۔ اور وہ (اللہ سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے رب! ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔‘‘
ہر اہم ترین موقع پر جہاں جتنا سخت امتحان ہوتا ان لوگوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور توبہ و استغفار بھی اس قدر بڑھ جاتے اور اللہ سے اس قدر زیادہ دعائیں کرتے اور معافیاں مانگتے ، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍٍ قَاتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَo وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ اِلَّا اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَo فَاٰتَاہُمُ اللّٰہُ
|