Maktaba Wahhabi

70 - 393
کرے؟ کیا وہ زانی باپ جس نے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کرلی اور اب اسے اس کے سوا اور کوئی سروکار نہیں کہ وہ کسی اور عورت کو تلاش کرے، جس کے ساتھ کچھ وقت بسر کرسکے؟ یا یہ بدکار ماں جس کا بنیادی قصد و ارادہ یہ تھا کہ اس کے پیٹ میں حمل قرار نہ پائے اور جب اس نے رحم میں حرکت کو محسوس کیا تو اپنی ساری کوششیں اسے ختم کرنے میں صرف کردیں؟ اسقاطِ حمل کے اکثر حالات جن کے بارے میں ہم سنتے اور روزانہ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں، اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ یہ بدکار عورتیں جنین کو قتل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو کیا یہ عقل کی بات ہے کہ ایسی ماں کے بارے میں یہ تصور کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے اسقاط سے بچالے تو وہ اپنے بچے کی اس طرح تربیت کرے گی، جس طرح ایک شفیق ماں تربیت کرتی ہے؟ بلاشک و شبہ ایسی ماں کی اوّلین کوشش یہ ہوگی کہ وہ قتل کرکے یا پناہ گاہوں میں پھینک کر اس بچے سے نجات حاصل کرلے تاکہ اس کی نئی محبت کی راہ میں یہ بچہ رکاوٹ نہ بنے، ان پناہ گاہوں کا بچوں کی شخصیت پر کیا اثر پڑتا ہے، آئیے یہ ہم ڈاکٹر نکول سے سنیں: ’’ یہ حرامی بچے عموماً اداروں یا اجنبی خاندانوں میں تربیت پاتے ہیں اسی وجہ سے وہ اس طرح پروان چڑھتے ہیں کہ ان کی شخصیت بگڑی ہوئی اور ان کی نفسیات کچلی ہوئی ہوتی ہے۔ ‘‘ [1] انافریدو ڈرٹی برلنگھم نے لکھا ہے کہ آخری جنگ کے تجربات نے پرورش گاہوں کے بچوں کے بارے میں یہ ثابت کردیا کہ ہر وہ بچہ جس کی تربیت مختلف آیائیں کریں گی، اس کی شخصیت کمزور و فاسد اور بگڑی ہوئی ہوگی، اس میں محبت اور تعاون کے جذبات پیدا نہیں ہوسکیں گے۔ ‘‘ [2] جب کسی معاشرے میں ایسے بچوں کی کثرت ہوجائے، جن
Flag Counter