Maktaba Wahhabi

68 - 393
طبعی بچوں(Exfont Noturels)کی نسبت پچاس فی صد تھی۔ ‘‘[1] ۱۹۰۱ء میں فرانس میں اس بات کی تحقیق کے لیے کانفرنس منعقد ہوئی کہ زنا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سب سے بہتر طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’ صرف صوبے سین کی پناہ گاہوں سے جمع کیے گئے حرامی بچوں کی تعداد پچاس ہزار ہے، بعض اہل کار اپنے زیر نگرانی لڑکیوں کے ساتھ بھی زنا کرتے تھے اور یہ حرامی بچے آپس میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ بدکاری کرتے تھے۔ ‘‘ [2] انگلستان کے بارے میں ڈاکٹر اوس والڈ شوارز نے لکھا ہے کہ ’’ انگلستان میں ہرسال قریباً اسّی ہزار عورتیں حرامی بچوں کو جنم دیتی ہیں، جو پیدا ہونے والے تمام بچوں کی مجموعی تعداد کا قریباً ایک تہائی حصہ ہے۔ ‘‘ [3] ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بارے میں آرنیسٹ ڈبلیو برگس(Eornest W.Burgess)، ہارویسٹ جے لاک(Harvest J. Lock)اور میری مارگریٹ تھامس(Mary Margaret Thomos)نے اپنی مشترکہ طور طور پر لکھی ہوئی کتاب میں غیر شرعی بچوں کی تعداد کو ایک نقشہ کی صورت میں پیش کیا ہے، جسے ہم قاری کے سامنے پیش کر رہے ہیں تاکہ ان کے ہاں غیر شرعی بچوں کی اس بہت بڑی نسبت کو وہ خود دیکھ لے: سن کالوں میں غیر شرعی بچوں کی نسبت گوروں میں غیر شرعی بچوں کی نسبت ۱۹۴۰ء ۸، ۱۶ % ۰، ۲ %
Flag Counter