Maktaba Wahhabi

375 - 393
وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ۔ [1] (اور اپنے پاؤں(ایسے طور سے زمین پر)نہ ماریں کہ(جھنکار کانوں میں پہنچے اور)ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔) سیّد قطب رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’ یہ بات انسانی نفس کی ترکیب، اس کے انفعال اور تقاضوں کی گہری معرفت کی بنیاد پر ہے کیونکہ بسااوقات خیال شہوتوں کو بھڑکانے کے لیے مشاہدہ سے بھی زیادہ قوی ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی شہوت محض عورت کے جوتے، کپڑے یا زیور کے دیکھنے سے بھڑک اُٹھتی ہے اور یہ اس کے جسم کے دیکھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی شہوت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دور سے زیورات کی جھنکار کا سننا یا عطر کی خوشبو کا سونگھنا بہت سے مردوں کے دورس کو برانگیختہ کرتا، ان کے اعصاب کو بھڑکاتا اور انھیں ایسے شدید فتنے میں مبتلا کردیتا ہے کہ جسے وہ ٹال نہیں سکتے، قرآن ان تمام راستوں کو بند کرتا ہے کیونکہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے، جس نے پیدا فرمایا اور وہ جانتا ہے کہ اس نے کس کو پیدا فرمایا ہے اور وہ ذات پاک لطیف و خبیر ہے۔ ‘‘[2] ابوبکر جصاص رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت بات کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرے اور اجنبی لوگ اس کی آواز سن رہے ہوں کیونکہ اس کی آواز اس کی پازیب کی آواز سے فتنہ میں زیادہ مبتلا کرنے والی ہوتی ہے، اسی لیے ہمارے اصحاب نے عورتوں کے اذان دینے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ اس کے لیے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘‘[3] اسلامی شریعت کی یہ خواہش کہ عورت اپنی آواز کو بلند نہ کرے، اس بات سے بھی نمایاں ہے کہ امام کی غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے عورتوں کو حکم ہے کہ وہ سبحان اللہ نہ
Flag Counter