Maktaba Wahhabi

353 - 393
مردوں سے اس طرح نرم انداز میں گفتگو کرنے سے منع کیا گیا ہے، جس سے ان کے بارے میں کوئی طمع و لالچ پیدا ہو اور یہ سمجھا جائے کہ وہ ان میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ‘‘[1] حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ تم کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے منافق یا فاجر سمجھنے لگے کہ تم اس سے موافقت کرتی ہو، عورت کو حکم ہے کہ جب وہ اجنبی مردوں سے بات کرے، تو سخت لہجے میں بات کرے کیونکہ یہ اسلوب طمع و لالچ سے دور کرنے کا سبب بنے گا۔ وَقُلْتُ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا یعنی ایسی صحیح اور پاکیزہ بات کرے، جس میں کسی فاجر کے لیے کوئی طمع نہ ہو۔ [2] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سدی اور کئی دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہ نرم اور لوچ انداز اختیار نہ کریں، اسی لیے فرمایا کہ:فَلْیَطْمَعَ الَّذِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ(تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی اُمید(نہ)پیدا کرے)وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔) ابن زید کہتے ہیں کہ ایسی بات جو اچھی اور نیکی کے اعتبار سے معروف ہو، بہرحال اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اجنبی مردوں سے ایسے انداز میں بات نہ کرے، جس میں نرمی اور نزاکت ہو یعنی عورت اجنبی مردوں سے اس طرح بات نہ کرے، جس طرح وہ اپنے شوہر سے بات کرتی ہے۔ [3] خلاصۂ کلام یہ کہ مسلمان عورت کو چاہیے کہ جب اجنبی مردوں سے بات کرنے کی ضرورت ہو تو نرم و نازک انداز میں ان سے بات نہ کرے۔
Flag Counter