Maktaba Wahhabi

325 - 393
ہی کو ہوتا ہے اور جب علانیہ طور پر کیا جائے اور اس سے منع نہ کیا جائے تو اس کا نقصان عام لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔ ‘‘ اور جب ان کا ارتکاب علانیہ طور پر ہو تو ممکن حد تک عدل کے ساتھ، ان کی سزا بھی علانیہ ہوگی، لہٰذا جو شخص علی الاعلان بدعت اور بدکاری کا ارتکاب کرے، اس کا ذکر غیبت نہیں ہے جیسا کہ امام حسن بصری اور دیگر ائمہ سے مروی ہے، اسی لیے کہ جب اس نے علی الاعلان ارتکاب کیا، تو وہ مسلمانوں کی طرف سے سزا کا مستحق ہوگیا، اس کی کم سے کم سزا یہ ہے کہ اس گناہ کی وجہ سے اس کی مذمت کی جائے تاکہ وہ باز آجائے اور اس کے گناہ، معصیت یا بدعت کا ذکر نہ کیا جائے، تو لوگ اس کے بارے میں دھوکے میں مبتلا ہوجائیں گے، ممکن ہے یہ امر بعض لوگوں کو اسی گناہ کے ارتکاب پر مائل کرے، جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور وہ خود جرأت اور گناہ میں اور بھی بڑھ جائے اور جب اس کا ذکر کیا جائے، تو وہ خود بھی رُک جائے گا، دوسرے بھی اس سے رُک جائیں گے اور وہ اس کی صحبت و رفاقت سے بھی اجتناب کریں گے۔ [1] علانیہ اقامت حدود کی اہمیت اس سے بھی واضح ہے، جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب عبدالرحمن بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مصر میں شراب پی اور اس کا بھائی اسے امیر مصر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا تاکہ وہ اسے حد لگائیں تو انھوں نے اسے خفیہ طور پر حد لگادی، جب کہ لوگوں کو حد علانیہ طور پر لگائی جاتی تھی، تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیج کر ان کے اس عمل کی مخالفت کی اور انھوں نے اسے حد شمار نہ کیا، انھوں نے اپنے بیٹے کو مدینہ میں بلا کر علانیہ طور پر حد لگادی اور ان کی رائے تھی کہ پہلی حد سے وجوب ساقط نہیں ہوا۔ [2]
Flag Counter