سید قطب رحمۃ اللہ حد قذف کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تہمتوں کا سننا فعل کے ارتکاب سے حرج محسوس کرنے والے نفوس کی طرف یہ اشارہ کرتا ہے کہ ساری جماعت ان کاموں میں ملوث ہے اور اس طرح کا فعل عام ہے لہٰذا جو شخص اس طرح کے فعل سے حرج محسوس کرتا تھا، وہ بھی اس کے ارتکاب پر مائل ہوجاتا ہے اور اس کے بارے میں کثرت سے گفتگو کی وجہ سے، وہ اس کی شفاعت اور خرابی کو بہت ہلکا سمجھتا ہے اور وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ اس کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ [1]
امام مالک رحمہ اللہ نے ابوزبیر مکی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو اپنی بہن کا رشتہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر کردیا کہ اس کی بہن نے زنا کیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے اسے مارا یا مارنے لگے تھے، پھر فرمایا کہ منگنی کرنے والے کو یہ خبر بتانے سے تمہارا کیا مقصود ہے؟ [2] حافظ ابوالولید باجی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں کہ عورت کے ولی کو چاہیے کہ وہ اس کی پردہ پوشی کرے کیونکہ فواحش کے بارے میں یہ واجب ہے کہ انسان اپنی بھی اور دوسروں کی بھی پردہ پوشی کرے۔ [3]
خلاصۂ کلام یہ کہ اسلامی شریعت نے فحش خبروں کی اشاعت کو حرام قرار دے کر اور قذف کی شدید سزا مقرر کرکے ایک ایسے دروازے کو بند کردیا ہے، جو فحاشی کے ارتکاب کی طرف لے جاتا ہے۔
|