Maktaba Wahhabi

268 - 393
ہوسکے۔ [1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ جب عورت شوہر سے نفرت کرے اور وہ اس سے حسن سلوک کا معاملہ کرنے، تو اس سے تفریق کا مطالبہ کیا جائے گا البتہ اسے لازم قرار نہیں دیا جائے گا، اگر وہ ایسا کرے تو بہت خوب ورنہ عورت کو صبر کرنے کا حکم دیا جائے گا کیونکہ اس صورت میں جواز فسخ کی کوئی وجہ نہیں۔ [2] بعض علماء کی رائے ہے کہ شوہر کے لیے عورت کے مطالبہ خلع کو پورا کرنا واجب ہے۔ امیر صغانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو یہ کہا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ثابت کو طلاق دینے کا حکم دینا امر ارشاد تھا امر وجوب نہیں تھا تو یہ درست نہیں کیونکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ امر کو اپنے اصل یعنی وجوب کے لیے اور یہ ارشادِ باری تعالیٰ بھی اس پر دلالت کرتا ہے:فَاِمْسَاکٌ م بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ م بِإِحْسَانٍ(پھر(عورتوں کو)یا تو بطریق شائستہ(نکاح میں)رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا)مراد یہ ہے کہ ان باتوں میں سے ایک واجب ہے اور یہاں شائستگی کے ساتھ نکاح میں رہنے دینا مشکل ہے کیونکہ عورت کی طرف سے علیحدگی کا مطالبہ ہے، لہٰذا بھلائی کے ساتھ چھوڑدینا متعین ہوگیا۔ [3] یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں ازدواجی زندگی کیسے برقرار رہ سکتی ہے، جب عورت کی اپنے شوہر سے کراہت یہاں تک پہنچ گئی ہو کہ وہ ہر اس چیز کو واپس لوٹانے کے لیے تیار ہو، جسے اس نے اپنے شوہر سے لیا تھا تاکہ اس سے خلاصی حاصل کرلے؟ جب ازدواجی زندگی شفقت، محبت اور سکون کے اپنی اصلی جوہر ہی سے خالی ہوجائے، تو پھر اس کے باقی رہنے کا کیا فائدہ؟ شیخ محمد علی صابونی فرماتے
Flag Counter