روایت کیا ہے کہ ابن مسیب نے کہا ہے کہ جب معرکہ کا زور میں گم ہوا ہو تو بیوی ایک سال انتظار کرے اور اگر کسی دوسری جگہ گم ہوا ہو تو چار سال انتظار کرے۔[1]
قیدی کی بیوی کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ اگر قیدی کی جگہ معلوم ہو تو اس کی بیوی نہ نکاح کرے اور نہ اس کا مال تقسیم کیا جائے اور اگر اس کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہ ہو تو اس کے بارے میں وہی طریقہ ہے، جو مفقود الخبر کی بیوی کے بارے میں ہے۔ [2]
اس موضوع سے متعلق اپنی گفتگو کو ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول پر ختم کرتے ہیں، جس میں انھوں نے بیوی کے حق کی حفاظت کے لیے ایک عام قاعدہ بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’ وظیفہ زوجیت کے ترک سے بیوی کو نقصان پہنچنا ہرحال میں فسخ نکاح کا متقاضی ہے، خواہ شوہر نے قصد و ارادہ سے وظیفہ زوجیت کو ترک کیا ہو یا قصد و ارادہ کے بغیر اسے ترک کیا ہو یا قدرت و عجز کی صورت میں ترک کیا ہو جیسا کہ نفقہ نہ دینا بھی فسخ نکاح کا متقاضی ہے خواہ وہ نفقہ قدرت و استطاعت کے باوجود نہ دے یا عجز و ناداری کی وجہ سے ادا نہ کرسکے لہٰذا ایلاء کی صورت میں فسخ نکاح زیادہ اولیٰ ہے کیونکہ اس صورت میں اسے زیادہ مشکل پیش آتی ہے اور اس پر اجماع ہے۔ ‘‘[3]
اس کی بنیاد پر قیدی اور محبوس وغیرہ کی بیوی کے بارے میں یہی حکم ہوگا جب کہ بیوی کا اس سے نفع حاصل کرنا مشکل ہو اور وہ اس سے جدائی اختیار کرنے کا مطالبہ
|