Maktaba Wahhabi

218 - 393
اس میں دوبارہ رغبت اور(اپنے کیے پر)ندامت ہوئی، تو اس نے چاہا کہ اس سے کوئی شخص شادی کرکے اس کے لیے اسے حلال کردے، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ دونوں زانی ہیں خواہ طویل عرصہ تک اکٹھے رہیں۔ انھوں نے بیس سال یا اس کے جیسی کسی مدت کا ذکر کیا … جب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہو کہ اس کا ارادہ اس کے لیے اس کی بیوی کو حلال کرنا ہے۔ [1] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جو اس کی بیوی سے اس کی خاطر حلالہ کر رہا ہو؟ آپ نے جواب دیا کہ جو اللہ تعالیٰ کو دھوکا دے گا، وہ اسے دھوکے میں ڈال دے گا۔ [2] امام ترمذی رحمہ اللہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سندوں سے مروی ہے، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جن اہل علم کا عمل بھی اسی کے مطابق ہے، ان میں سے عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، عبداللہ بن عمر اور کئی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، فقہاء تابعین کا بھی یہی قول ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحق رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ میں نے جارود کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ امام وکیع کا بھی یہی قول ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ اصحاب رائے کے قول کو اس دروازے پھینک دینا چاہیے۔ ‘‘ امام وکیع نے کہا کہ امام سفیان نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت سے حلالہ کے ارادہ سے شادی کرے اور پھر وہ اسے(طلاق دینے کی بجائے)اپنے پاس ہی رکھنا چاہے تو اسے اپنے پاس رکھنا حلال نہیں، جب تک نئے نکاح کے ساتھ اس سے شادی نہ کرلے۔ [3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نکاح حلالہ
Flag Counter