شرح میں ابن الملک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ حلال اور حرام میں صرف یہی فرق ہے کیونکہ فرق تو بوقت نکاح گواہوں کی موجودگی سے بھی حاصل ہوجاتا ہے لہٰذا اس سے مراد اعلانِ نکاح کی ترغیب ہے تاکہ دور کے لوگوں سے بھی یہ معاملہ مخفی نہ رہے پس سنت یہ ہے کہ دف بجانے اور مبارک باد اور مباح اشعار کے پڑھنے کے نغمہ کی صورت میں حاضرین کی آواز سے نکاح کا اعلان کیا جائے۔ [1]
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نکاح کا اعلان اور اس میں دف بجانا مستحب ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مستحب ہے کہ نکاح کو ظاہر کیا اور اس میں دف کو بجایا جائے تاکہ یہ نکاح مشہور و معروف ہوجائے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نکاح میں دف کے بجانے کے حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اس میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ نکاح اور زنا کی قضاء شہوت اور مرد و عورت کی رضامندی کے اعتبار سے ایک جیسی صورت ہے، لہٰذا واجب تھا کہ کسی ایسی چیز کا حکم دیا جاتا، جس سے فوری طور پر دونوں میں فرق واضح ہوجاتا اور کسی کے لیے اس میں کلام یا مخفی رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔ [2]
یہاں اس طرف توجہ مبذول کروانا بھی واجب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دف بجانے کا جو حکم دیا ہے، اس کے یہ معنی نہیں کہ ایسے گانے بھی جائز ہیں، جو شہوانی جذبات کو بھڑکانے والے ہوں کیونکہ ایسے گانے نکاح وغیرہ نکاح ہر وقت حرام ہیں۔ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ’’ المغنی ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس طرح کی غزل میں کوئی حرج نہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار کے لیے اس قول کی طرح ہو:
أَتَیْنَاکُمْ أَتَیْنَاکُمْ فَحَیُّوْنَا نُحَیِّیْکُمْ
|