Maktaba Wahhabi

197 - 393
مَنْ لاَّ وَلِیَّ لَہٗ۔[1] ’’ ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں اور جو نکاح اس کے بغیر ہو وہ باطل ہے اور اگر(اولیاء کا)اختلاف ہو، تو بادشاہ اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو۔ ‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ وہ عورتیں بدکار ہیں، جو گواہی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلیتی ہیں۔ [2] ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ طیبی نے کہا ہے کہ ’’ گواہی ‘‘ سے مراد یا تو گواہ ہے، جس کے بغیر ہونے والا نکاح امام شافعی و ابوحنیفہ رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک زنا ہے یا اس سے مراد ولی ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے نکاح واضح ہوتا ہے۔ پھر ملا علی قاری نے طیبی رحمہ اللہ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مخفی نہیں ہے کہ یہاں پہلا معنی ہی مراد ہے کیونکہ شرعاً اور عرفاً ولی پر ’’ بینہ ‘‘(گواہی)کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ [3] علماء نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ نکاح میں گواہوں کی موجودگی شرط ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔‘‘[4] صاحب ہدایہ لکھتے ہیں کہ ’’ خوب جان لیجیے کہ شہادت بابِ نکاح میں شرط ہے کیونکہ آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے: لَا نِکَاح اِلاَّ بِشُھُوْدٍ۔[5]
Flag Counter