Maktaba Wahhabi

185 - 393
یا عاجز آجائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما کو بھائی بھائی بنادیا تھا، سلمان، ابوالدرداء کی ملاقات کے لیے گئے تو انھوں نے ام الدرداء کے پرانے بوسیدہ کپڑے پہنے ہوا دیکھا تو ان سے پوچھا:کیا بات ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء کو دنیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ابوالدرداء آئے تو انھوں نے سلمان کے لیے کھانا تیار کروایا۔ سلمان نے ان سے کہا کہ آپ بھی کھائیں، انھوں نے جواب دیا کہ میں نے روزہ رکھا ہے۔ سلمان نے کہا کہ جب تک آپ نہیں کھائیں گے، میں بھی نہیں کھاؤں گا، پس انھوں نے بھی کھانا کھالیا، اور پھر رات کو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اُٹھنا چاہا تو سلمان نے کہا کہ سوجاؤ، وہ سوگئے، انھوں نے پھر اُٹھنا چاہا، تو سلمان نے پھر کہا کہ سوجاؤ، پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا، تو سلمان نے کہا کہ اب اُٹھیے، اور پھر دونوں نے(تہجد کی)نماز پڑھی، پھر سلمان نے ان سے کہا کہ تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے لہٰذا ہر حق دار کا حق ادا کرو۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بات کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا:سلمان نے سچ کہا ہے۔ [1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سلمان نے جو یہ کہا کہ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کا یہ حق ہے کہ اس سے ہم بستری کی جائے، پھر انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنی بیوی کے پاس جاؤ، اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان کی بات کی تائید فرمائی تھی۔ اس حدیث سے مستحب امور سے ممانعت کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے، بشرطیکہ ان سے تھکاوٹ اور اکتاہٹ حاصل ہو اور ایسے واجب یا مستحب حقوق ضائع ہوتے
Flag Counter