Maktaba Wahhabi

175 - 393
فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی طویل عرصہ تک غائب رہے، تو وہ اپنے گھر والوں کے پاس رات کو اچانک نہ آئے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ حدیث میں طویل عرصہ تک غائب رہنے کی قید اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس ممانعت کا تعلق طویل غیبت سے ہے گویا حکم کا وجود اور عدم کے اعتبار سے تعلق اس کی علت سے ہے مثلاً اگر کوئی شخص اپنی کسی ضرورت کے لیے دن کو گھر سے باہر نکلے اور رات کو واپس آجائے، تو اسے کسی ایسی چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جس کا اس شخص کے لیے اندیشہ ہوتا ہے، جو طویل عرصہ تک غائب رہا ہو، طویل عرصہ تک غائب رہنے کی صورت میں اچانک آجانے کا اندیشہ نہیں ہوتا اور طویل عرصہ تک غائب رہنے کے بعد اگر کوئی اچانک اپنے گھر میں آجائے، تو اکثر و بیشتر اسے ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو اسے ناپسند ہو مثلاً ممکن ہے کہ اس کی بیوی نظافت و زینت کی ایسی حالت میں نہ ہو، جو عورت سے مطلوب ہے اور اس طرف یہ بات دونوں میں نفرت کا سبب ہوسکتی ہے، اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایسی حالت میں مباشرت مکروہ ہے، جب عورت صاف ستھری نہ ہو تاکہ اس کی کسی ایسی چیز پر نظر نہ پڑے، جو موجب نفرت ہو، اچانک آجانے کی صورت میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو کسی ناپسندیدہ حالت میں پائے، جب کہ شریعت نے پردہ پوشی کی ترغیب دی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں میاں بیوی کو الفت و محبت کی ترغیب دی گئی ہے، شارع نے میاں بیوی دونوں میں اس بات کو ملحوظ رکھا ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کو اس سے مطلع بھی کردیا ہے، جس کی سترپوشی کا معمول ہوتا ہے، اکثر و بیشتر صورتوں میں اگرچہ ایک سے دوسرے کے عیوب مخفی نہیں ہوتے، اس کے باوجود شوہر کو رات کے وقت اچانک گھر آنے سے منع کردیا گیا ہے تاکہ وہ کوئی ایسی چیز نہ دیکھ سکے، جو قابل نفرت ہو تو میاں بیوی کے علاوہ دیگر لوگوں کے معاملہ میں اس بات
Flag Counter