Maktaba Wahhabi

16 - 393
نے مجھے اس مقالہ کے لکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ استاد گرامی منزلت جناب پروفیسر ڈاکٹر عبدالفتاح مصطفی الصیفی، سابق چیئرمین شعبہ دعوت و احتساب، ہائر انسٹی ٹیوٹ برائے دعوت اسلامی کے لیے بھی شکر گزار اور دعا گو ہوں کہ آپ نے اس مقالہ کے نگران کی حیثیت سے اپنے آرام کو قربان کرکے بہت سا وقت صرف کیا اور اس کے معیار کو بلند کرنے کے لیے آپ مسلسل اپنی قیمتی آراء سے نوازتے رہے۔ امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی خصوصاً اس کے عزت مآب مدیر پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، ہائر انسٹی ٹیوٹ برائے اسلامی دعوت کے سابق مدیر جناب ڈاکٹر عبداللہ بن زاہد، سابق ڈین امور طلبہ اور موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر شیخ صالح بن سعود العلی اور شیخ سعود بن محمد بشر ڈین دعوت و میڈیا کالج کے لیے سراپا تشکر و امتنان ہوں۔ یونیورسٹی میں عموماً اور ان قابل احترام شخصیتوں کے ہاں خصوصاً یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے سارے عرصے میں میں نے عنایت و نگہداشت اور نصرت و اعانت کی فضا کو پایا ہے۔ میں جناب ڈاکٹر عمر بن عبدالعزیز المترک رحمہم اللہ تعالیٰ سابق مشیر بادشاہی سیکرٹریٹ اور جناب پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز السعید سابق یونیورسٹی کے لیے بھی سراپا سپاس ہوں، جنھوں نے مقالہ کے مناقشہ کی کمیٹی کی رکنیت کو قبول کیا اور مقالہ کے پڑھنے کے لیے اپنے بہت سے وقت اور آرام کی قربانی دی، میں اپنے ان تمام احباب و رفقاء کرام کا بھی شکر ادا کرنا چاہتا ہوں، جنھوں نے مقالہ کی تکمیل کے لیے میرے ساتھ کسی طرح کا بھی تعاون فرمایا۔ میں حکومت سعودی عرب کی تعلیمی پالیسی کو بھی نہایت قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں کہ نوجوانانِ عالم اسلام کو یہاں کی یونیورسٹیوں میں جس طرح کی سہولت و اعانت میسر آتی ہے، وہ کسی دوسری جگہ ممکن نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ کی توفیق کے ساتھ اس موضوع پر لکھنے میں میں نے مقدور بھر کوشش
Flag Counter