Maktaba Wahhabi

99 - 660
طرف چلتا رہتا ہے یعنی اس آخری نقطے کی طرف جب وہاں پہنچے گاتواس کی حرکت ختم ہوجائے گی اوروہ فنا ہوجائے گاآخراس میں سائنس اورقرآن کا کون ساٹکراوہے؟ اگربالفرض سائنس والے سورج کی حرکت کے منکر ہی ہیں تو کیا حرج ہوگا،جو لوگ گرگٹ کی طرح بارباررنگ بدلتے رہتے ہیں ان کی بات کو کیا اصدق القائلین،علیم،خبیراورعالم الغیب والشہادۃ کی بتائی ہوئی حقیقت کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے؟یہ طرز عمل عقل کا دیوالہ نہیں ہے ؟کتاب اللہ کی بتائی ہوئی حقیقت سوفیصد سچ ہے۔باقی دنیا والوں کی باتیں توہردوسری تیسری سال بدلتی رہتی ہیں۔ ایسے متبدل اور متغیرنظریہ کو کتاب اللہ جیسی مضبوط اورحق کتاب کے مقابلہ میں وہی پیش کرسکتا ہے جویا توبےعقل ہویا حلاوت ایمان سے عاری ہو۔بہر حال قرآن کریم کی صداقت ایک ثابت شدہ اورطے شدہ حقیقت ہے جس کی حقیقت کو دنیا کی کوئی ہستی ردنہیں کرسکتی اس کےہوتے ہوئے بھی سائنس اس معاملہ میں مخالف ہی ہے توسوال کس چیز کا؟باقی رہی بات پہاڑوں کو میخیں بنانے والی تووہ اس طرح ہے جس طرح کشتی کوکیلوں سےمضبوط کیا گیا ہے اوروہ عمیق پانی کے دریاؤں اورسمندروں میں چلتی رہتی ہے ،پھر اگر کوئی کہے کہ بڑی بڑی کیلوں کوکشتی کے لیے میخیں بنایا گیا ہے توکیا اس کا یہ مطلب ہوگاکہ کشتی پانی میں کھڑی ہے ؟ہرگز نہیں! بعینہ اسی طرح زمین بھی غیر متناہی فضامیں اللہ تعالی کی قدرت سے لٹکی ہوئی ہے جس طرح اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿إِنَّ ٱللَّهَ يُمْسِكُ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ أَن تَزُولَا﴾ (فاطر:٤١) ’’بے شک اللہ تعالی نے آسمانوں اورزمینوں کو تھاماہواہے کہ وہ ادھر اورادھرنہ ہوجائیں۔‘‘ باقی اس پر پہاڑ زمین کے مختلف اوراق اورطبقات کے لیے کیل کی طرح ہیں یا یوں کہیں کہ جس طرح کشتی خالی ہوجاتی ہے تواوپر نیچے ہوتی رہتی ہے پھر جب اس کے اوپر وزن رکھا جائے گاتووہ کافی متوازن ہوجائے گی اورطوفانی حالت کے علاوہ میں اتنا اوپر نیچے نہیں ہوگی
Flag Counter