Maktaba Wahhabi

67 - 660
اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہے نہ کہ اس حاکم کی کیونکہ وہ حاکم قانون ساز قطعا نہیں ہےبلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنے والا ہے قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تعالی کوہی ہے،جیسے فرمایا: ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ﴾ (الانعام:۵٧) ’’اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں(چلتا)۔‘‘ ایک اورجگہ فرمایا: ﴿أَمْ لَهُمْ شُرَ‌كَاءُ شَرَ‌عُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ﴾ (الشوري:٢١) ’’کیا ان کے لیے شرکاء ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین میں وہ چیزیں مشروع کردی ہیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔‘‘ اسی طرح حدیث میں ہے کہ: ((لاطاعة لمخلوق في معصية الخالق)) [1] ’’یعنی جس بات یا کام کرنے سے خالق کی نافرمانی لازم آئے اس میں کسی بھی مخلوق کی ‘‘خواہ’’وہ ماں باپ ہوخواہ عالم خواہ کوئی امیریاحاکم’’اطاعت نہیں کرنی۔‘‘ اورظاہر ہے کہ اللہ تعالی اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ان کے ارشادات عالیہ کی خلاف ورزی میں لازم آتی ہے۔لہذا اس صورت میں کسی کی اطاعت نہیں کرنی۔یہی مطلب سیاق وسباق کے موافق ہے اورقرآن وحدیث کے بالکل مطابق ہے۔اس میں تقلید شخصی کانام ونشان بھی نہیں اس کا اثبات تودورکی بات ہےلیکن اگر ’’علي سبيل التنزل‘‘یہ تسلیم بھی کیا جائے تواولی الامرسےمرادعلماء ہیں،یعنی مطلق علماء خواہ وہ صاحب امر ہوں یا نہ ہوں ،توبھی اس سے تقلید شخصی کا اثبات ہرگزنہیں ہوتا کیونکہ آیت کریمہ کا یہ حصہ جواوپرذکرکیا گیا ہے یعنی ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ الخ﴾اس سے مانع ہے ،اس طرح کہ اختلاف
Flag Counter