Maktaba Wahhabi

66 - 660
علماء میں سےہوں یاغیرعلماءمیں سے مگر وہ علماء جو صاحب امر نہیں وہ"أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ"میں داخل نہیں ہوسکتے۔دیگر الفاظ میں مذکورہ آیت امت مسلمہ کو اپنے امراءکی اطاعت کا حکم فرمارہی ہے اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بھی امراءکی اطاعت کی تاکید کی گئی ہے،کیونکہ اسلام کا ایک اپنا نظام دستوراورقانون یاآئین ہے اوروہ حکومت میں اقتدارکےبغیرنافذنہیں ہوسکتا اس لیے کتاب وسنت مسلم میں امراء وحکام کی اطاعت پر زوردیاگیاہے تاکہ وہ امت مسلمہ میں ربانی قانون نافذ کرسکیں۔مگران حکام کی اطاعت غیر مشروط ہرگزنہیں بلکہ ان کی اطاعت تب تک کی جائے گی جب تک وہ اللہ اوراس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اوران کی سنت وطریقہ کی مخالفت نہ کریں ورنہ اگر ان کا کوئی بھی امر یا حکم کتاب وسنت کے خلاف ہوگا تو اس صورت میں ان کی اطاعت ہرگز جائز نہیں یہی سبب ہے کہ جو آیت کریمہ سوال میں تحریر کی گئی ہے اس میں"أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ"کےبعد یہ الفاظ مبارک ہیں: ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِر﴾ (النساء:۵۹) ’’اگرکسی بات میں اختلاف کرو تواس کو اللہ اوراس کے رسول کی طرف لوٹاؤاگر تمھیں اللہ پر اوریوم آخرت پر ایمان ہے۔‘‘ یعنی تنازعہ اوراختلاف کی صورت میں پوراکا پورامعاملہ اللہ تعالیٰ اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یا کتاب وسنت کی طرف لوٹایاجائے گاپھرجس کی بات کتاب وسنت کے موافق ہوگی توصحیح ورنہ غلط۔ اوریہ تنازعہ یا اختلاف تب ہی وجود میں آتا ہے جب کوئی شخص(حاکم یا عالم)کوئی حکم یا مسئلہ بتاتا ہے مگر اس کے برخلاف اوراس کی فتوی کے مخالف کوئی کتاب اللہ کی آیت ہوتی ہے یا کوئی حدیث شریف ورنہ اگر حاکم کا حکم یا عالم کی فتوی کتاب وسنت کے خلاف نہ ہو توپھر جھگڑا اوراختلاف پیدا ہوہی نہیں سکتا۔کیونکہ اس صورت میں یہ اطاعت بالآخراللہ تعالی
Flag Counter