تخصیص بیان نہیں ہوئی اس لیے پہلی جگہ میں یہ بیان ہے کہ حرام کے تمام افرادوغیرہ ماکےعموم میں داخل ہیں ہمارے لیے اس نقطہ کو مزیدتقویت اس حقیقت سے بھی ملتی ہے کہ قرآن کریم سورۃ الانعام والی آیت میں فرمایاگیا ہے:
﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ﴾
یعنی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حرام کے متعلق تفصیل کے ساتھ سمجھایاہے، لیکن جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سورۃ انعام مکی ہے اوراس میں زیربحث آیت سےپہلے ’’ميتة ولحم الخنزير‘‘وغیرہماکی حرمت کاتذکرہ موجودہی نہیں بلکہ اس آیت کے دوسرے رکوع کےبعدان محرمات کاتذکرہ کیاگیا ہے اسی طرح کچھ حرام اشیاء کاذکرسورۃ نحل کےآخرمیں کیاگیاہے لیکن سورۃنحل سورۃانعام کے بعدنازل ہوئی ہے۔ ان دونوں سورتوں کے علاوہ دوسری کسی بھی مکی سورۃ میں ان کا(حرمت)ذکرنہیں۔
زیربحث آیت:
﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾
کامطلب ہوگاکہ حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں حرام اشیاء کے متعلق تفصیل سےسمجھارہا ہے اورسمجھائے گایعنی یہاں ماضی بمعنی مستقبل کے ہے اورکلام عرب میں ایسا مستقبل کافعل جس کا وقوع یقینی ہواس کے لیے ماضی کا فعل استعمال کرتے ہیں، یعنی ایسے آنے والےکام کا وقوع ایسا یقینی ہوتا ہے کہ گویاوہ ہوچکا ہے۔ مثلاً:
﴿أَتَىٰٓ أَمْرُ ٱللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ﴾ (النحل:١)
’’اللہ کا حکم آپہنچاپس تم اس میں جلدی نہیں کرو۔ ‘‘
وغیرہمامن الآیات یعنی مقصدیہ ہواکہ تمہیں اپنے خیال کے مطابق حلال شے کوحرام قراردینے کا اختیارنہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ وقتاًفوقتاًحرام وحلال کے متعلق بیان دیتا رہتا ہےاوردیتارہےگا، تمہیں اس مسئلہ کے متعلق بھی ارشادربانی کامنتظررہنا چاہئےجسے اس سے پہلے حرام کیاگیا ہے اس کو سمجھیں اورجس کے متعلق بعدمیں آگاہی معلوم ہواس کے
|