Maktaba Wahhabi

379 - 660
ہیں جوآپ نے اختلاط سے قبل اخذکرچکاتھا۔ لہٰذا اس اختلاط سے حدیث کی سند میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوسکتی ۔ امام احمد کے دونوں شیخوں کا استادشعبہ ہے اوروہ ابن الحجاج ابوبسطام الواسطی ثم البصری ہے اوراس کے متعلق تقریب میں مرقوم ہے۔ ((ثقه حافظ متقن كان الثوري يقول هواميرالمومنين في الحديث وهو اول من فتش بالعراق عن الرجال وذب عن السنة وكان عابدا.)) اس عبارت پرمزید حاشیہ آرائی کی کوئی ضرورت نہیں۔ امام شعبہ ابوالتیاح سے روایت کرتے ہیں(ان کا نام یزیدبن حمیدہے اوریہ ثقہ ہیں) (تقریب)پھرابومجلزہے(ان کانام لاحدبن حمیدہے یہ بھی ثقہ ہیں (تقریب)اس حدیث کی سند ان شاء اللہ بےغبارہے۔ متن الحدیث:......اس حدیث میں جناب سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم عمومی حکم بیان فرماتے ہیں کہ وتر رات کی نماز کی آخری رکعت ہے۔ سیاق حدیث کا اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ حکم عام ہے یعنی آپ کی ذات مقدسہ بھی اس میں داخل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ علماء"لاصلوة بعدالعصر" کےمتعلق فرماتے ہیں کہ اس حکم میں آپ کی ذات مبارکہ بھی داخل ہے اس لیے آپ کافعل (یعنی عصرکے بعددورکعت پڑھنا)اس سےمتعارض ہے اس لیے یا تواس کی نہی یا فعل کو متاخرہونے کی وجہ سے اس نہی سے مخصوص ماناجاتا ہے ۔ ("انظرحصول المامول"پھرنوع جب ایسے قول کہ جس میں آپ کی ذات گرامی داخل نہ ہو(جیساکہ)نهي عن الشرب قائما میں ہے)اورفعل متعارض میں بھی محققین جمع کاطریقہ ہی اختیار کرتے ہیں توپھر اس صورت میں کہ قول میں آپ کی ذات والابھی شامل ہواورفعل اس سے بظاہر متعارض ہوتووہاں بطریق اولی جمع ہی مناسب ہے باقی رہا جمع توایک صورت اس کی وہ ہے جو امام نووی وغیرہ نے اختیار کی ہے اورایک وہ ہے جو یہ بندہ ناچیز راقم الحروف پہلے مضمون میں عرض کرچکا ہے ان میں سے کوئی صورت بھی اختیارکی جاسکتی ہے باقی اس قول کےبدعت قراردینا یا جوان کو مسنون سمجھ کر پڑھتا ہے اس کو بدعتیوں
Flag Counter