Maktaba Wahhabi

378 - 660
اس حدیث سے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم امت کے لیے ہے اوراس پر لفظ احدکم واضح طورپردلالت کررہے ہیں۔ لہٰذا اس امراورآپ کے فعل کھڑے ہوکرپینامیں تعارض نہ ہواکیونکہ بظاہریہ فعل(یعنی الشرب قائما)آپ کی ذات شریف سےمخصوص معلوم ہوتاہےلیکن پھربھی محققین علماء دونوں میں جمع کی صورت کو اختیارکرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ نہی سےمرادنہی تنزیہی ہے اورآپ کا فعل جوازپردال ہے اوراسی توجیہ کو حافظ ابن حجراولیٰ قراردیتے ہیں جیساکہ علامہ مبارکپوری تحفۃ الاحوذی:ج1میں تحریرفرماتے ہیں : ((ومنهم من قال ان احاديث النهي محمولة علي كراهة التنزيه قال الحافظ (اي ابن حجر) هذاحسن المسالك وسلمهاوابعدمن الاعتراض.)) یعنی حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ توجیہ زیادہ اچھی ہے اوراعتراض سے بھی یہی زیادہ دورہے۔ بخلاف اس کے وترکورات کی نمازکے آخیرمیں رکھنے کے متعلق ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی اس میں داخل ہے)اوروہ حدیث یہ ہے۔ ((حدثناعبداللّٰه حدثني ابي ثناءمحمدبن جعفروحجاج قالاثناشعبة عن ابي التياح عن ابي مجلز عن ابن عمر رضي اللّٰه عنه ان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم قال الوترآخرركعة من الليل.)) [1] رجال السند:......امام احمد کےدوشیخ میں ایک محمدبن جعفریہ مدنی بصری ہیں جو غندکے لقب سے معروف ہیں یہ ثقہ ہیں۔ (تقريب)دوسراحجاج ہے اوروہ حجاج ابن محمد المصیصی الاعور ابومحمد الترمزی الاصل ہیں۔ اس کے متعلق حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں کہ ثقه ثبت لكنه اختلط في آخرعمره لماقدم بغدادقبل موته" مطلب یہ ہے کہ یہ راوی ثقہ ہیں باقی رہا ان کا اختلط تواس سے آخذ حضرت امام احمد
Flag Counter