Maktaba Wahhabi

325 - 660
فرماتے ہیں اس وقت یہ غالباً سن شباب کو یا کہولت کو پہنچ چکے ہوں گے اوراسی وقت صحابی مذکورہ نے ان سے روایت بیان کی اورصحابی یہ فرمارہے ہیں کہ یہ بات یعنی اذان ثانی جوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بڑھادی تھی،ثابت ہوئی۔(اس صحابی نے سنہ٩١ہجری میں وفات پائی) خلاصہ کلام:......یہ کہ ان خلفاء راشدین کا زمانہ گزرچکالیکن انہوں نے اس کام کوتغیرنہیں دیااوراس کو بندکیا۔ لہٰذا سب صحابہ کا اس پر اجماع ہوگیااورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا اجماع حجت ہے ۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب میری ساری کی ساری امت گمراہی پراتفاق نہیں کرے گی،اگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فعل صحیح نہ ہوتا توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر ضرورمعترض ہوتے اوراس پر اتفاق قطعاًنہ کرتے ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے حال کو اپنے حال پر قیاس نہیں کرنا چاہیے ان کا حال امربالمعروف ونہی عن المنکرمیں وہ تھا کہ ہمارے تصورسےبھی بالاترہے وہ اس بات میں کسی لومۃ لائم یاکسی حاکم(خواہ کتنا ظالم ہو)سے خوف نہیں کھاتے تھے اوربغیر کسی پس وپیش کے حق کو ادافرماتےتھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاہے: ((فعليكم بسنتي وسنة الخلفاءالراشدين المهديين.)) [1] ’’یعنی تم میری سنت اورخلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑلو۔‘‘ لہٰذا یہ ثابت ہوگیا کہ یہ سنت دوراشدخلیفوں کی سنت ہے(یعنی حضرت عثمان اورحضرت علی رضی اللہ عنہما)توہمیں آپ کے ارشادگرامی کے مطابق اس کو پکڑلیناچاہئے،البتہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ اذان نہیں دی جاتی تھی لہٰذا اگرکوئی نہیں دیتا تواس پر بھی طعن ونشنیع نہیں کرنی چاہئے یعنی جومسجدوالے یہ اذان ثانی دیتے ہیں وہ بھی اچھاکرتے ہیں اورجونہیں دیا کرتے بلکہ صرف خطبہ کے وقت والی اذان دیتے ہیں وہ بھی کوئی برانہیں کرتے لہٰذا دونوں پرطعن ونشنیع کرناانصاف سےبعید ہے،باقی یہ جو حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے امرفرمایاکہ زوراء پر اذان ثانی دی جائے وہ لو گوں کی سہولیات کی وجہ سے تھا
Flag Counter