Maktaba Wahhabi

25 - 660
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی مقدم جانتے اوراسی کے مطابق فتاوٰی صادرفرماتےتھے۔ ان کےمبارک دورکے بعدتابعین اورتبع تابعین کا مبارک دورآتا ہے اس میں بھی قرآن وسنت کومقدم جانا جاتا تھا۔تابعی حضرت سعید بن المسیب،حضرت عروہ بن زبیر،حضرت خارجہ بن زید حضرت عبیداللہ بن عبداللہ،حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر،حضرت ابوبکربن عبدالرحمن،حضرت سلیمان بن یسار،حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن اورحضرت سالم بن عبداللہ یہ وہ سات عظیم شخصیتیں ہیں کہ جو فقہ وفتاوی میں نامورہوئے اوران پر امت مسلمہ بجاطورپرفخرکرسکتی ہے۔ ان فقہائے سبعہ کے حالات کے لیے مولانا حافظ محمد اسحاق حسینوی(وفات٤جولائی٢۰۰٢)کی مرتبہ کتاب’’فقہائے سبعہ‘‘طبع مارچ ١٩٧٩ءلاہورمیں تفصیل دیکھی جاسکتی ہےاورجماعت اہل حدیث کے عظیم مصنف محموداحمد غضنفرحفظہ اللہ کی ترجمہ کردہ کتاب‘‘فقہائے مدینہ’’بھی معلوماتی ہے۔قرون اولیٰ کے بعد امت محمدیہ انتشارکا شکارہونا شروع ہوگئی،گروہ بندیاں اورتقلیدی مذاہب وجود میں آگئے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ’’حجتہ اللہ البالغہ‘‘میں لکھا ہے کہ دوسری صدی ہجری میں بعض اصول وقواعدکے اختلاف کی وجہ سے دوگروہ پیدا ہوگئے۔ اہل الحدیث اوراہل الرائے(دیکھئے باب الفرق بین اہل الحدیث واہل الرای)اہل حدیث میں اکثریت اہل حجاز کی تھی ۔جن کے سامنے کتاب وسنت کی نصوص اورآثارسلف تھے۔اہل حدیث کا یہ گروہ احادیث نبویہ اورصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فتاوی کی بنیادپرفتوی دیتا تھااورجب تک کسی واقعہ کا ظہورنہ ہوجاتا اس وقت تک اس کے بارے میں شرعی حکم بیان کرنے سے گریزکرتا تھا۔ دوسراگروہ اہل الرائے کا تھاجس میں فقہائے عراق کی غالب اکثریت تھی ۔ان کےپاس چونکہ صحیح احادیث کم تھیں اس لیے انھوں نے فتوی دیتے وقت عام طورپررائےااورقیاس کا کثرت سے استعمال کیا۔بعض ایسے قواعدوضع کیے جن کو سامنے رکھ کرپیش آمدہ اورآئندہ پیش آنے والے بلکہ محال اورغیر ممکن الوقوع ہزاروں مسائل سے متعلق اپنی رائے ظاہر کی اورانھیں فقہ وفتاوی کی کتابوں میں جمع کرگئے۔ائمہ مجتہدین کے بعد ان کے متبعین ومقلدین
Flag Counter