Maktaba Wahhabi

228 - 660
ان شاءاللہ ردنہیں کرسکتا، لہٰذا ایسے عالمی دین اورعالمی برداری کووجود میں لانے کے لیےزبان بھی ایسی کا انتخاب ہونا چاہیئے تھا جوسب زبانوں سے اعلیٰ ہو۔ عربی زبان کی لطافت نحواورصرف زیروزبراورپیش یا الف، واؤاور ی کے اختلاف کے لحاظ سے معنی میں بے پناہ اختلاف آجاتاہےیہ ایسی خصوصیت ہے جو دوسری زبان میں نہیں ملتی،اس ایک زبان میں مہارت لانے کے لیے جتنے علوم کی ضرورت ہوتی اتنے علوم کی ضرورت دوسری زبانوں میں نہیں ہوتی ۔ لہٰذا کامل دین کے لیے عربی زبان کا انتخاب عین حکمت کا تقاضا تھی، اگراس کی جگہ دوسری زبان منتخب کی جاتی تووہ ہرگز اس کامل دین کے لیے موزوں نہ ہوتی، علاوہ ازیں جب اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے رہنا تھا اورانسان کو کئی مسائل درپیش آتے رہتے ہیں لہٰذا اس کے لیے ایسی زبان کا اختیارکرنا ضروری تھا جس میں رہتی دنیا تک انسانوں کے مسائل کا حل موجود ہو، یہ عربی زبان اوراس کے الفاظ کے معانی کی بے پناہ وسعت ہی ہے کہ ہر زمانہ کی ضرورتوں کا ساتھ دیتی رہی ہے اور دورمیں انسانی مسائل کا حل اس میں دستیاب رہا ہے،دوسری زبان یہ پارٹ ہرگز ادانہیں کرسکتی تھی ،یہ صحیح ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی زبان عربی تھی کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیاجاکرہرایک کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں۔ ان کی ڈائریکٹ(Direct preaching)ایک قوم تک ہی رہ سکتی تھی،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ڈائریکٹ عربوں کی طرف بھیجاتاکہ وہ اس کے حامل بن کراس دین کو دوسرے ملکوں اورانسانوں تک پہنچائیں اس طرح یہ دین۔قرآن وسنت پوری دنیا میں پہنچ گئے۔ یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایسا انتظام ضرورکیا کہ اپنے کلام پاک کے تراجم پوری دنیا کےمشہورزبانوں میں میسرکروائے، اس طرح دنیا کلام پاک سے اپنی اپنی زبان میں مستفید ہوتی رہے اورہوتی رہے گی۔(ان شاء اللہ) خلاصہ کلام کہ جب تک دنیا اپنی صفر شنی میں تھی اوراپنے کمال کو نہ پہنچی تھی تب تک توہرملک میں الگ الگ نبی آرہے تھے لیکن جب دنیا اپنی بلوغت وکمال کو پہنچی اوراپنے لسان
Flag Counter