Maktaba Wahhabi

22 - 660
اختلاف ونزاع سے،ہرحال میں وہ شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لیے مفتیوں سے فتوی لیتےرہے ہیں اورمفتیان کرام نے افتاء کو اپنا منصبی فریضہ سمجھ کرہمیشہ امت کی راہنمائی کی ہے۔ افتاء کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہےکہ اللہ تبارک وتعالی نے اس کی نسبت خوداپنی ذات کی طرف کی ہے۔ارشادربانی ہے: ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّٰه يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ(النساء:١٧٦) ’’ یہ لوگ آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں(انھیں) کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللّٰه يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ﴾ (النساء:۱۲۷) ’’آپ سے عورتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں،آپ کہہ دیجیئے کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے۔‘‘ ان آیات سے معلوم ہواکہ اللہ تبارک وتعالی سب سے بڑے مفتی ہیں اوراس کےآخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی دارالافتاء پر فائز ہیں۔قرآنی آیات میں جہاں بھی َيَسْتَفْتُونَكَ اوريَسْأَلُونَكَکےالفاظ آئے ہیں وہ کسی مسئلہ کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےکیے گئے سوالات کے جوابات ہیں۔جو اللہ تعالی نے بصورت وحی نازل فرمائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وحی الہی کے ذریعے لوگوں کو فتوی دیا کرتے اورمسائل واحکام بتایاکرتے تھے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کوجب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتاتووہ براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکرمسئلے کا حل پالیتے۔ان احکام الہیہ اورفرامین نبویہ کی طرف رجوع بہر حال فرض اورواجب ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے حکمافرمایاہے: (فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللّٰه وَالرَّ‌سُولِ) (النساء۴/۵۹) ’’اوراگرتم کسی معاملے میں جھگڑپڑو تواسے اللہ اوررسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف لوٹادو ۔‘‘
Flag Counter