Maktaba Wahhabi

187 - 660
واردہوئے ہیں۔یعنی ﴿وَأَمَّا ٱلَّذِينَ سُعِدُوا۟ فَفِى ٱلْجَنَّةِ خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتُ وَٱلْأَرْ‌ضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَ‌بُّكَ ۖ عَطَآءً غَيْرَ‌ مَجْذُوذ﴾ (ھود:٨ ۰ ١) یعنی جہنم خواہ جنت کا بقاء اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے اگرچاہے توان کو بھی فناکرسکتاہےمگرفنانہ ہوں کیونکہ دوسرے مقامات پر رب تعالیٰ نے اپنی اٹل مشیت بیان فرمادی ہے کہ وہ فنا نہ ہوں گے اورجنتی خواہ جہنمی ان میں ہمیشہ رہیں گے اسی طرح سورۃ انعام میں بھی یہ الفاظ ہیں: ﴿قَالَ ٱلنَّارُ‌ مَثْوَىٰكُمْ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ﴾ (الانعام:١٢٨) اس کے متعلق بھی وہی گزارش کی جاسکتی ہے۔بہرحال جہنم کی فناء پر کوئی قاطع دلیل نہیں بلکہ خلودودوام کی طرف مشیر دلائل موجود ہیں اگر ان پر کوئی قناعت نہیں کرتا توزیادہ سے زیادہ اس کے متعلق توقف کرے یہ سمجھے کہ جیسا اللہ تعالیٰ نے چاہاویسے ہی ہوگاہمیں کیامجال کہ اس کی مرضی میں دخل اندازی کریں ۔باقی اس یقین کے لیے کوئی ٹھوس دلیل نہیں کہ یقیناً جہنم فناہوگی باقی شفاعت کے لازمی امرہونے کا مطلب اگریہ ہے کہ آخرت میں شفاعت واقع ہوگی تویہ بات درست ہے مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت سے: ﴿مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾ (البقرۃ:۲۵۵) اوروہ بھی ان کے لیے جوکافرومشرک نہیں ہیں مشرکین اورکفارکے لیے کوئی سفارش نہیں کرے گا اوراگر شفاعت کے لازمی امرہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اوپر یہ کام لازمی ہے کہ جو بھی شفاعت کرے اللہ تعالیٰ اسے ردنہ کرسکے تویہ معنی قطعاً غلط ہے رب تعالیٰ کے اوپر کوئی بھی زوریاجبرنہیں کرسکتا وہ خود صاحب اختیار ہے بندوں کو کیا مجال ہے کہ اس سے انسانوں کی طرح زبردستی کرسکیں اس طرح کی بات قطعاً غلط ہے باقی رہا یہ مسئلہ کہ جہنم سے زانی ،شرابی اوربے نمازی نکلیں گے یا نہیں ان کی شفاعت ہوگی یا نہیں یہ مسئلہ تفصیل
Flag Counter