Maktaba Wahhabi

184 - 660
ترقی اورفلاح کا دروازہ خودہی بند کردے۔یہ حقیقت اس قدرواضح ہے جس کا انکارسوائےضداورعنادکے ممکن ہی نہیں ہے۔یہاں پریہ سوال بھی قابل دریافت ہے کہ تقدیر کے متعلق سوالات ملحد(اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکاری)ان کی طرف سے پیش ہوئے ہیں یاکسی مسلمان جاہل کی طرف سے ،اگرپہلی شق ہے تودرحقیقت ان سوالات کے جوابات دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تقدیر یا علم واندازہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت ہے جو شخص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود ہی کا منکر ہے اس کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت کے بارے میں بحث کرنا سراسربیکاراورفضول ہے،بحث ومناظرے کے طریقے کے بھی برخلاف ہے تووقت کا بھی ضیاع ہے۔ صفت کسی ذات کی فرع ہوتی ہے،جب کوئی ذات ہی کو نہیں مانتاتواس کی صفت یاخوبی اورکمال پر بحث کرنا یاا س کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے چھان بین کرنا سراسرغیرمعقول ہے۔ان حضرات کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بحث کرتے ہوئےدلائل پیش کرنے چاہیئں۔پھر جب وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود کے دل سے اقراری بنے توپھر صفات کے متعلق تحقیق ہونی چاہیئے اورحق کو معلوم کرنا چاہیئے ۔یہ حضرات تواللہ سبحانہ و تعالیٰ کےوجود کے ہی منکر ہیں۔ باقی ایسے سوالات صرف لوگوں کو سمجھانے کی خاطر کرتے رہتے ہیں یہ طریقہ کاردرست نہیں ہے اس طرح حق واضح نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ سوال کسی جاہل مسلمان کی طرف سے ہے تواس کو حکمت موعظہ حسنہ اورنرم وشریں الفاظ میں پوری حقیقت سمجھانی چاہیےکہ ’’بھائی تقدیر کا معنی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اندازہ یاعلم ، لہٰذا اگرقائل نہیں ہواتواس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارامعبوداللہ سبحانہ و تعالیٰ جس نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا اورکائنات کے ذرے ذرے میں بے شمار حکمتیں رکھیں جس کے قلیل انداز کو اہل علم وسائنس روزبروزکائنات کے مظاہرسےاخذاوراستنباط کرتے رہتے ہیں۔یہ معبود(معاذاللہ)کوئی جاہل معبودنہیں جس کو کوئی پتہ ہی نہیں ہے کہ اس کی پیدا کردہ مخلوق کیاکام کررہی ہے یا کرے گی،یعنی نعوذ باللہ اس نے صرف اس مخلوق کو پیداکردیاباقی ا س کویہ پتہ ہی نہیں تھا کہ اس میں صلاحیتیں اورلیاقتیں ہیں اوران استعدادکے موجب ان سے کون سے
Flag Counter