Maktaba Wahhabi

183 - 660
ہے؟ہرگزنہیں! ڈاکٹر تواس کی بیماری کی نوعیت اورکیفیت ڈگری اوردرجے کے علم کےمطابق اس بات کا اظہارکیا البتہ یہ بیماری اس اسٹیج پرکیسے پہنچی یاشروع کیسے ہوئی اس کا پتہ کبھی کبھی ہوتا ہے تو کبھی کبھی نہیں ہوتا ،لیکن اللہ تعالیٰ کو ہر انسان کی جسمانی یاروحانی بیماری کاعلم ہوتا ہے اوراس کے پیداہونے کا بھی علم ہوتا ہے توکیا یہ علم اعتراض جیسی بات ہے؟ بہرحال اس عالم کا اس مکمل نقشے یا خاکے کے علم اوراندازے کے بعد اللہ تعالیٰ نےاس کوایک کتاب میں ثبت کردیا ہے جس کو وہ’’قرآن مبین‘‘یا’’امام مبین‘‘سے پکارتا ہے،مطلب کہ تقدیر کی معنی ہے علم یا اندازہ تواس میں کیا خرابی ہے؟اس سے تواللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم اوراندازے کی وسعت معلوم ہوئی جو کہ اس کی کمال کی صفت ہے اس میں کوئی بھی خرابی نہیں ہے۔یہاں اگراللہ تعالیٰ یہ لکھ دیتے کہ فلاں بندے تونے یہ کام کرنا ہے اورفلاں تونے یہ کام کرنا ہےتواس صورت میں کچھ بولنے کی گنجائش ہوسکتی تھی لیکن اس طرح نہیں، اس نے تویہ لکھا ہے کہ فلاں آدمی ان وجوہات کی بنا پراپنی آزادی سے کام لے کریہ کام کرے گاخداراانصاف کریں اس میں کیا خرابی ہے؟کہ کون سی اعتراض جیسی بات ہے؟ جب کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے علم وحکمت ،تقدیری اندازے کا بے اندازاوربے شمارثبوت فراہم کررہا ہے، توانسان کے متعلق اس کے علم واندازے کا انکارکیوں؟ یہاں پر یہ سوال بالکل فضول ہےکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کیوں انسان کے سامنے یہ مختلف اسباب لائے ہیں جن کی وجہ سے وہ خیر اورشرکے مختلف حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں کیوں نہ ان کےسامنے ایک ہی راستہ لائے ؟اس لیے کہ اس صورت میں انسان مشینی صفت کی ایک مخلوق ہوتااورایک ہی راہ کولے چلتا اوراس میں اس کے ارادے یا عمل کا کوئی دخل نہ ہوتا، اس حالت میں امتحان یا آزمائش والی بات سراسرمہمل اوربیکارہوجاتی کہ اس کو کسی راستے کو اختیار کرنے کاکوئی اختیار ہی نہیں ہے اس لیے آزمائش کس چیز کی ؟بہرحال ابتلاء اورآزمائش کے لیےدونوں راستوں کا ہونا اورانسان کے سامنے پیش آنا اٹل اورضروری تھا تاکہ ان میں خود جس کوچاہے اس کو اختیارکرلے ،دنیا کمال حاصل کرلے یا اپنی لیاقت اورصلاحیت کو ضائع کرکے
Flag Counter