Maktaba Wahhabi

166 - 660
لیکن وہ کفاراوریہ مسلمان فیاللعجب،اس کے برعکس اگران الفاظ (یعنی جس نے’’لا الٰہ الا اللہ’’کہا وہ جنت میں داخل ہوگا)کا مطلب یہی ہے کہ صرف زبان سے یہ الفاظ اداکردیئے جائیں باقی جومن میں آئے کرتا پھرے وہ مسلمان ہے اورپکا موحد ہے اورجنت کی ٹکٹ اس کے ہاتھ لگ گئی ہے توپھر سوچنے کی زحمت کی جائے کہ پھر ایسے آسان وسہل اسلام لانے سے ابولہب ،ابوجہل اوردیگر کفارکوکیا چیز مانع تھی جب کہ وہ انہیں تویہی الفاظ اداکردینے تھے باقی من مانیاں کرنے سے کوئی چیز انہیں مانع نہ تھی بلکہ جو کچھ بھی کرتے پھرتےان کے اسلام پر ذرابھربھی کوئی اثرنہ پڑتابلکہ جنت میں جانا بھی ان کے لیے آسان تھا پھرآخر وہ یہ الفاظ کہہ کردائرہ اسلام میں کیونکر داخل نہ ہوئے؟اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کی زبان عربی تھی ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے معنی ومفہوم کو خوب جانتے تھے اوران کے تقاضوں کو بھی سمجھتے تھے کہ صرف یہ الفاظ کہنے کافی نہیں بلکہ ان الفاظ کے کہنے کے بعد ان کے معنی ومفہوم پر کام یقین واعتقادرکھنا ہوگااوراپنی زندگی انہی کلمات کے معنی ومفہوم پر عمل کرتے ہوئے اوران کی تقاضائے ومتمنات کو پوراکرتے ہوئے گزارنی پڑے گی اوریہی وہ بات تھی جو ان کے لیے مشکل تھی جو وہ نہ کرسکے اس وجہ سے وہ اسلام وایمان سے محروم رہے آخر ہمارےآج کل کے مسلمان نے جنت کو اتنا سستا کس بناپرسمجھ رکھا ہے۔هَاتُوا۟ بُرْ‌هَـٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ! خلاصہ کلام:۔۔۔۔۔۔کہ ایک موحد کا جو صحیح طور پر توحید پر مستقیم ہے وہ خواہ صالح ہویاگنہگارلیکن جنت میں بہرحال ضرورداخل ہوگا خواہ ابتداءًبغیر کسی سزاوعذاب کے بھگتنے کے خواہ بالآخر مقررہ مدت کے عذاب بھگتنے کے بعد لیکن یہ بات ہرسچے مومن کو ذہن میں رکھنی چاہیئےکہ جہنم کی آگ کی حرارت وتپش اس دنیا وی آگ سے کئی گنا زیادہ ہے ارشادربانی ہے: ﴿قُلْ نَارُ‌ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّ‌ۭا﴾ (التوبہ:٨١) ’’یعنی آپ کہہ دیں کہ جہنم کی آگ سخت گرم ہے۔‘‘ اس کی تشریح صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مروی ہے کہ نبی
Flag Counter