Maktaba Wahhabi

165 - 660
ہے یہ مشرک نہیں بلکہ موحد ہی ہے ،البتہ اسے فاسق وگنہگارکہا جائے گااورایساشخص اگرتوبہ نصوحہ کرتا ہے اوراپنے کیے پر نادم ہوتا ہے اورآئندہ بازرہتا ہے اورمزید اپنی اصلاح کرتاہے تو اس کا وہ گناہ اللہ تعالیٰ کے ارشادکے موجب معاف ہوجاتا ہے لیکن اگرکوئی شخص بغیر معافی طلب کیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا توپھراللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت رہے گا چاہے اسےاپنے فضل عظیم سے معاف کردے اورجنت میں داخل کردے یا چاہے اسے گناہوں سےپاک صاف کرنے کے لیے کچھ وقت جہنم میں داخل کرے پھر اپنی نظر کرم سے معاف کرکےجنت میں داخل کردے۔یہ ہے صحیح مطلب ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘کا اوریہی ہے صحیح وحقیقی موحد اورشرک سے بیزاراوربری باقی عوام بلکہ کچھ خواص بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس حدیث شریف کا مطلب ہے کہ صرف زبان سے یہ الفاظ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘اداکردینے سے آدمی پکاموحد بن جاتا اوراس کے لیے جنت میں جانے کے لیے بھی الفاظ اداکردینے کافی ہیں’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا زبان سے ورد کرنے کے بعدچاہے وہ پیروں کی پوجا کرے اورقبوں قبروں کاطواف کرتا پھرے اوران پرسجدہ کرتا رہے اورمردوں سے مرادیں مانگتا پھرے نماز وغیرہ کی فرضیت کا انکارکرتا رہے،محرمات،زنا،چوری ،شراب نوشی،جوا،سود،رشوت وغیرہ وغیرہ کوحلال سمجھتا رہے اورایمان کے اجزاءکاانکارکرےپھر بھی وہ موحد ہے اورجنت کا ٹھیکیدارہےتویہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے آج کل کے نام نہاد مسلمان بزرگوں کی قبروں کی پوجاکرنےکے بعد بھی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔حالانکہ مکہ مکرمہ کے کفاربتوں کی پرستش کرتےتھے اورجن بتوں کی پوجاکرتے وہ صلحاء وبزرگان دین کے مجسمےتھے وہ ان کے پوجنے سےیہ سمجھتے تھے کہ ان مجسمین کی ارواح خوش ہوکراللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے۔ ﴿وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾ (یونس:۱۸) ’’اوروہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ یعنی اس وقت کے کفارصالحین کے مجسموں کی پرستش کرتے تھے اورآج کل کےمسلمان انہی صالحین کی قبروں کو پوجتے ہیں خداراسوچیں کہ ان دونوں میں آخر کیا فرق ہے؟
Flag Counter