Maktaba Wahhabi

120 - 660
نہیں ہوتے بلکہ محض اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے اورحق سے پھسلانے کے لیے ہوتے ہیں جس طرح اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُ‌فَ الْقَوْلِ غُرُ‌ورً‌ا﴾ (الانعام:۱۱۲) مطلب کہ قرآن کریم کے مطابق انسانوں میں شیاطین یعنی(سرکش اوراللہ کےبندوں کو گمراہ کرنے والے)ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام کے برخلاف لوگوں کو بے ہودہ باتیں بتاکران کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈال کر صراط مستقیم سے دورکردیتے ہیں،اس لیے یہ منکرین حدیث بھی شیطان ہیں محض اسلام سے دشمنی کی خاطر ایسے غلط اورواہی اعتراضات اوربے ہودہ شکوک وشبہات سادہ مسلمانوں کے سامنے پیش کرکے ان کو گمراہی کے عمیق گھڑےمیں گرارہے ہیں ورنہ دراصل ایمان کے لیے اس حدیث پاک میں قابل اعتراض کوئی بات ہی نہیں ہے اورنہ ہی کوئی مشاہدات اورواقعات کے خلاف کوئی حقیقت بتائی گئی ہے۔ صرف سمجھنے کا فرق ہے یا حسد وتعصب کا چشمہ چڑھانے کا اثر ہے ۔﴿وَاللّٰهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾اب جواب عرض ركها جاتا ہے۔ دراصل حدیث مبارک میں یہ مشکلات اس لیے پیش آئی کہ ایک توحدیث پاک میں لفظ’’شیطان‘‘ہے جس سے ابلیس مرادلیاجاتا ہےجوکہ صحیح نہیں ہے دوسرایہ کہ حدیث شریف میں یہ الفاظ ہیں: ((فانها تلطع بين قرني الشيطان.)) جس کا ترجمہ یہ ہےکہ : ’’کیونکہ یہ سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔‘‘ یہ ترجمہ بھی غلط ہے اس لیے یہ پوری خرابی وجود میں آگئی ۔اس احوال کی تفصیل یہ ہے کہ ’’شیطان‘‘ کا لفظ کوئی خاص ابلیس کے لیے نہیں ہے بلکہ شیطان کے معنی ہے سرکش جو اپنی سرکشی میں اورہوگیا ہواوراللہ کے بندوں کو گمراہ کرتا رہے اس لیے توقرآن کریم میں کافروں
Flag Counter