Maktaba Wahhabi

119 - 660
جائے گاکہ یہ حدیثیں جھوٹی ہیں ورنہ یہ احادیث مشاہدات اورواقعات کے برخلاف نہ ہوتیں ۔اب قرآن وحدیث سے اس سوال کی وضاحت اورتفصیل سے جواب دیا جائے تاکہ شکوک وشبہات دورہوجائیں؟ الجواب بعون الوھاب: حدیث پاک پر اس بے جااعتراض کے جواب سے پہلے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی ایک بنیادی بات یہ ہے کہ ایک سچامومن اللہ تبارک وتعالیٰ اوراس کے سچے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر اس بات پر پورا بھروسہ اوریقین کامل رکھےجوصحیح طورپرباسندثابت ہوااگرکسی آدمی کا کتاب وسنت کے ثابت شدہ حقائق پر ایمان کامل نہیں ہے تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہے جب ایک انسان کتاب وسنت پر پکا اورسچاایمان رکھتاہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کی رہنمائی کرتا ہے جس طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿وَٱلَّذِينَ جَـٰهَدُوا۟ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت:٦٩) ’’جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے ہم ضرورانھیں راستہ دکھاتے ہیں۔‘‘ اورایسے کامل ایمان والے کے لیے خود ہی ایسے اسباب علم اورہدایت کے ایسے راستےمہیاکرتا ہے کہ اس کے سارے شک وشبہات کافوربن جاتے ہیں اوراس کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے لیکن جو شخص بے ایمان ہے اوراس کے دل ودماغ پر اسلام کے خلاف تعصب کےپردے لٹکے ہوئے ہیں اوراللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے توایسے آدمی کو کتاب وسنت میں غورکرنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا کیونکہ اس کی آنکھوں پر دشمنان اسلام کی دشمنی کا چشمہ چڑھاہوا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں کو کتاب وسنت کی باتیں اس طرح نظر نہیں آتیں جس طرح اس کو اس کے آقا پٹیاں پڑھاتے ہیں۔ پھر ایسے ملحد اوربے دین حدیث پاک کے دشمن اورمتکبرین اسلام کو ان ہدایت کی باتوں میں کئی شکوک وشبہات نظر آتے ہیں چونکہ ان منکرین حدیث کا عالم ہی دوسرا ہےانہوں نے یہ عزم کیا ہوا ہے کہ خواہ مخواہ تحریف وتبدیل کرکے معنی اورمطلب کوگھماکرکوئی نہ کوئی حدیث پاک میں نقص وعیب نکالنا ہی ہے اس لیے ان کے اعتراض حق کو سمجھنے کے لیے
Flag Counter