Maktaba Wahhabi

97 - 378
اور انہوں نے فاطمہ کے لیے ایسا ہودج بنایا ہے جیسا دلہنوں کے لیے بنایا جاتا ہے۔ جنابِ صدیق اکبر یہ سن کر بے حد حیران ہوئے۔ چنانچہ آپ اسماء کے پاس پہنچے اور ان سے پوچھا: ’’اے اسماء! کیا بات ہے! تم نے ازواجِ رسول کو بنتِ رسول کے پاس جانے سے کیوں روکا۔ اور یہ تم نے ہودج کیا بنایا ہے جیسے دلہنوں کا ہوتا ہے۔ اسماء بولیں : کسی کو بھی اندر جانے سے وہ خود منع فرما گئی ہیں ۔ رہا یہ ہودج تو یہ میں نے انہیں ان کی حیات سے بنا کر دکھایا تھا۔ انہیں یہ پسند آیا تھا اور حکم دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد کھجور کی گیلی شاخوں کو موڑ کر یوں ہی کمان دار بنا کر اس پر کپڑا ڈال دینا۔‘‘ یہ سن کر جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی اسماء رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: جیسے تمہیں سیّدہ فاطمہ بتول نے وصیت کی ہے تم ویسا ہی کرتی جاؤ۔ یہ کہہ کر سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لوٹ گئے اور سیّدہ اسماء اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کو غسل دیا۔ [1] سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کس قدر حیاء کی مالک تھیں اور آپ جیسی عظیم خاتون سے ایسی بات کا صدور کوئی انوکھی چیز نہیں ۔ بھلا یہ کون ہیں ؟ یہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ جن کے حیاء کا یہ قصہ ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آلِ بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جس عظیم عورت کو اپنے مرنے کے بعد بھی حیاء کی اس قدر فکر تھی، وہ بھلا اپنی زندگی میں کس قدر حیاء کے ساتھ رب کی دھرتی پر چلتی ہوگی؟ بخاری اور مسلم میں روایت ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَلْحَیَائُ لَا یَأتِیْ اِلاَّ بِخَیْرٍ)) [2] ’’حیاء خیر ہی لاتا ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
Flag Counter