امام جعفر صادق رحمہ اللہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ثنا خواں :
امام جعفر صادق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک مرتبہ تذکرہ کیا تو فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بارہ ہزار تھے، آٹھ ہزار مدینہ کے تھے، دو ہزار مکہ کے اور دو ہزار فتح مکہ کے دن آزاد کیے ہوئے تھے، ان میں کوئی قدر یہ فرقے کا نہیں تھا اور نہ مرجیہ فرقے کا کوئی تھا، نہ حروری فرقے کا کوئی تھا، اور نہ کوئی معتزلی تھا اور نہ کوئی اصحاب الرائے میں سے تھا، وہ لوگ دن رات روتے تھے اور کہتے تھے: اے اللہ! خمیر کی روٹی کھانے سے پہلے ہماری روحوں کو قبض فرما۔‘‘ [1]
اگر صحابہ رضی اللہ عنہم میں کوئی مرجیہ، حروری، معتزلی اور صاحب رائے نہیں تھا تو ان میں اس سے بھی زیادہ سخت یعنی منافق کیسے ہوسکتا ہے، جیسا کہ خواہشات کی پیروی کرنے والوں کا کہنا ہے؟
امام صادق نے اس روایت میں جو بیان کیا ہے، وہ قرآن میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارد تزکیہ ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف کی گئی ہے اور ان کو اللہ کی رضا مندی اور ہمیشہ ہمیش کی جنتوں کی خوش خبری دی گئی ہے، اس کے سامنے ان تمام جھوٹی روایتوں کا کیا مقام؟ جن میں انگلیوں پر شمار کیے جانے کے قابل چند کو چھوڑ کر تمام صحابہ کے مرتد ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے!!
منصور بن حازم نے امام جعفر سے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں دریافت کیا: ’’مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں آپ سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا ہوں تو آپ مجھے ایک جواب دیتے ہیں پھر دوسرا یہی سوال کرتا ہے تو آپ اس کو دوسرا جواب دیتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: ہم لوگوں کو دیکھ کر کم یا زیادہ جواب دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں بتائیے کہ انہوں نے محمد کی تصدیق کی یا تکذیب کی؟ انہوں نے جواب دیا: بلکہ انہوں نے تصدیق کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا: پھر ان کو کیا ہوگیا کہ انہوں نے آپس میں اختلاف کیا؟ انہوں نے
|