کے قریب سے ہوتا اور وہ سوار رہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے اکرام میں اترتے اور ان کے گزرنے تک سوار نہیں ہوتے۔‘‘[1]
ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا اکرام کرتے تھے اور ان سے محبت فرماتے تھے، حسن بن علی رضی اللہ عنہ ’’یوم الدار‘‘ (جس دن عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے اور اسی دن دشمنوں نے ان کو قتل کر دیا تھا) کو ان کے ساتھ تھے اور تلوار لٹکائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دفاع کر رہے تھے، عثمان رضی اللہ عنہ کو ان پر اندیشہ ہوا تو ان کو قسم دے کر واپس کر دیا، تاکہ علی کا دل مطمئن ہو جائے۔‘‘ [2]
طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ثنا خواں :
یہ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ہیں جو اہل بیت کے بہترین فرد سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تعریف میں کہتے ہیں : ’’ابن عباس کو فہم، سمجھ اور علم عطا کیا گیا ہے۔‘‘ [3]
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ثنا خواں :
یہ سیّدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ ہیں جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی تعریف میں وارد حدیثوں کو لوگوں میں پھیلا رہے ہیں ، اگر ان کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں رہتی تو یہ حدیثیں عام نہیں کرتے، امام مسلم نے سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ میں چھوڑ دیا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہارا مقام میرے نزدیک وہی ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے پاس تھا؟ البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ [4]
|