نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی خلفائے راشدین نے ان کو یہ حق دیا، جمہور علمائے کرام کا یہی قول ہے، جو سب سے صحیح ہے۔ [1]
فائدہ: … آل بیت کے حقوق بہت سے ہیں ، ہم نے یہاں صرف اہم حقوق کو بیان کیا ہے، جس کا اسلام اور نسب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت و رشتے داری) ثابت ہو تو اس کے حق میں ان حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہے۔
ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نسب پر اعتماد کرنے سے چوکنا کیا کرتے تھے، مکہ میں ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کو اس بات سے ڈرایا تھا، یہ واقعہ بہت مشہور و معروف واقعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قریش والو! اپنی جانوں کو اللہ سے خریدو، میں اللہ کے مقابلے میں تم کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے مقابلے میں تم کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اللہ کے رسول کی چچی صفیہ! میں اللہ کے مقابلے میں تم کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، فاطمہ بنت محمد! تم میرے مال و دولت میں سے جو چاہو مجھ سے مانگو، میں اللہ کے مقابلے میں تم کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ (بخاری) ابو لہب کے سلسلے میں اتری ہوئی آیات سے ہم میں سے ہر ایک واقف ہے، ہم اللہ کے حضور جہنم سے پناہ مانگتے ہیں ۔
ناصبین کے سلسلے میں اہل سنت والجماعت کا موقف:
اہل سنت والجماعت کے نزدیک آل رسول کے مقا ومرتبے پر گفتگو کرنے سے پہلے ناصبیوں کے سلسلے میں اہل سنت والجماعت کے موقف کی وضاحت کرنا ضروری ہے، جس کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں :
لفظ ’’نصب‘‘ کے لغوی معنی: کسی چیز کو قائم کرنا اور اٹھانا، اسی سے استعمال ہوتا ہے: ’’ناصبۃ الشر والحرب‘‘ برائی اور جنگ برپا کرنے والی۔
قاموس میں ہے: ’’نواصب، ناصبہ اور نصب وہ لوگ ہیں جو حضرت علی سے بغض و عداوت
|