سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
آج کی اس مجلس میں ہم بحث ومباحثہ اور گفتگو کے سلیقے پر بات کریں گے جو ہمارے معاشرے صرف عوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ آفاقی سطح پر نہایت قیمتی سرمایہ ہے۔ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾ (النحل: ۱۲۵)
’’(اے پیغمبر!) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔‘‘
رب تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اچھے طریق سے مناظرہ کرو، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ بہت ہی اچھے طریق سے مناظرہ کرو جس میں الفاظ و عبارات اور اسالیب و دلائل زیادہ سے زیادہ عمدہ اور بہتر ہوں ۔
آج ہم یہ بات کریں گے کہ سب سے اچھی ’’گفتگو‘‘ کیسے کی جائے۔ چاہے وہ بیوی بچوں ، گھر کے افراد، شریک کار کے ساتھ ہو اور چاہے وہ اپنے آقا اور ماتحتوں کے ساتھ ہو۔ حتی کہ معاشرے کے سب طبقات کے ساتھ اچھی سے اچھی گفتگو کیسے کی جائے۔
تو اے میرے دوستو! اس بات کا سلیقہ اور ادب سیکھنے کے لیے آؤ اہل بیت کے مدرسہ میں زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں تاکہ ہم نہایت بلند پایہ گفتگو، بحث ومناظرہ اور تحقیق و تدقیق سیکھ سکیں ۔
ایک دن امام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے آلِ بیت رسول کے عظیم چشم و چراغ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔
|