خوارج روافض کا انتہائی شدت پسند فرقہ تھا۔ انہوں نے اہل ایمان کے ساتھ نہایت سخت محاربہ ومقاتلہ کیا۔ ان کے نزدیک لوگوں کی جان مال اور عزت وآبرو سب حلال تھی۔ لوگ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو آکر اس بات کی خبر دیتے تھے کہ روافض نے آپ کے خلاف خروج کیا ہے تو آپ فرماتے تھے: ’’انہیں چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ میرے خلاف نکلیں اور جب تک یہ میرے ساتھ خود قتال نہیں کرتے۔ میں ان کے ساتھ قتال کرنے والا نہیں۔‘‘ [1]
اگرچہ خوارج بے حد جھگڑا لو اور شدت پسند تھے لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے پھر بھی ان کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف بھیجا۔ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس امت کے سب سے بڑے عالم (حبر الامہ)، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد اور اس خاتون کے فرزند ہیں جن کو سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد اسلام لے آنے کا شرف حاصل ہے۔ اور وہ ام الفضل لبابہ بنت حارث الہلالیہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔
ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے، انوارِ نبوت کے سائے تلے پلے بڑھے اور نبوی تعلیمات کی روشنی میں نشوونما پائی۔ ہوش سنبھالتے ہی جنابِ رسول اللہ کے دامن کو لازم پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث کو روایت کیا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آخری عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ اور طائف میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں وفات پاکر آسودۂ خاک ہوئے۔
عمرو بن دینار کہتے ہیں : ’’میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مجلس سے بڑھ کر کسی مجلس کو نہیں دیکھا جو ہر خبر کو جامع ہو جس میں حلال وحرام، لغت عرب، انساب اور شعر غرض کے ہر قسم کے علوم بکھیرے جاتے تھے۔‘‘
عطا کہتے ہیں : سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مجلس علمی ایسی تھی کہ کوئی شعر اور انساب کے بارے میں پوچھ رہا ہے، کوئی ایام عرب اور ان کے واقعات کا سوال کر رہا ہے، کوئی فقہ اور علم کی بابت پوچھ رہا ہے، اور انہیں سب سوالات کے تسلی بخش جوابات ملتے تھے۔
|