Maktaba Wahhabi

154 - 378
جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مختلف ایام کو مختلف درسوں کے لیے تقسیم کر رکھا تھا۔ چنانچہ ایک دن فقہ کا، ایک دن تفسیر و تاویل کا، ایک دن معازی کا، ایک دن شعر و ادب کا اور ایک دن ایام عرب کا ہوتا تھا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی جب کسی مسئلہ میں کوئی اشکال پیش آتا تھا تو آپ کو ہی بلوا کر اس کے بارے میں دریافت فرماتے اور ساتھ ہی سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی شان میں یہ کہتے: ’’ایسی ہی باتوں کے لیے تو اور تیرے جیسے لوگ ہوتے ہیں ۔‘‘ پھر سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کو لے لیتے اور آپ کے سوا کسی دوسرے کو نہ بلواتے تھے۔ امت نے آپ کو ترجمان القرآن کا لقب دیا اور یہ لقب یوں ہی نہ مل گیا تھا بلکہ آپ کی روشن عقل، نور قلب، وسعت علم ومعرفت نے آپ کو اس لقب کا اہل بنایا تھا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ آفاقی و ابدی دعا دی۔ ((اَللّٰہُمَّ فِقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّأْوِیْلَ)) [1] ’’اے اللہ! اسے دین میں فقاہت اور قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔‘‘ آپ بجا طور پر علماء کا ماہِ تمام، علم کا ابلتا چشمہ، مفسر قرآن، اور تاویل کے بیان کرنے والے تھے، بے حد حساس، خوش لباس، ہم نشینوں کا اکرام کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔[2] انہی خوبیوں کے پیش نظر آپ کے چچا زاد جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج جیسے بے حد کج فرقے کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے آپ کا انتخاب فرمایا۔ آپ نے بھی جناب علی رضی اللہ عنہ کے حسن انتخاب کو حق ثابت کرکے دکھایا۔ آپ نے خوارج کے ساتھ بے حد عمدہ بحث کی۔ ان کے سامنے حدیث کی حجت پیش کی۔ دلائل سے ان کے دعویٰ کی جڑ کاٹ دی۔ ایسی برہان قائم کی کہ ان کی عقلیں اڑا دیں ۔ اور وہ آپ کے ناقابل تردید دلائل کے سامنے دم بخود رہ
Flag Counter