غنیمت لے کر اس بات پر فرحاں و شاداں دارالخلافہ مدینہ منورہ چلے آئے کہ اسلامی قلمرو کا دائرہ پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہو گیا تھا۔
فتح طبرستان:
امیر المومنین سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر طبرستان[1] کے محاذ کی طرف بھی روانہ کیا۔ اس لشکر میں حسنین رضی اللہ عنہما کے ساتھ ساتھ دوسرے عیان مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے۔ مجاہدین کو ان علاقوں میں زبردست فتوحات حاصل ہوئیں ۔ چنانچہ ۳۰ ھ میں مجاہدین کی فوجِ ظفر موج سیّدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کوفہ سے روانہ ہوئی۔
اس غزوہ کے دوران مجاہدین نے ایک دفعہ ’’قومس‘‘ نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اہل قومس اور مسلمانوں میں پہلے سے معاہدۂ صلح چلا آتا تھا۔[2] وہاں سے چل کر مجاہدین ’’جرجان‘‘ پہنچے اور ان کے دو ہزار دینار پر صلح کی۔ وہاں سے طمیسہ‘‘[3] کے قریب جاکر فروکش ہوئے۔ طمیسہ ایک ساحلی علاقہ تھا۔ جہاں پر آکر طبرستان کی حدود ختم ہو جاتی ہیں یہ سب شہر طبرستان کی قلمرو میں داخل تھے۔ مجاہدین کے اہل طمیسہ کے ساتھ زبردست معرکے ہوئے اور جنگ کے شعلے اس قدر بھڑکے کہ مسلمانوں کو نمازیں ’’صلوٰۃِ خوف‘‘ کے ساتھ ادا کرنی پڑیں ۔ یہ بات معلوم ہے کہ نماز، خوف قتال میں شدت کے وقت ادا کی جاتی ہے۔ گھمسان کی جنگ کے بعد فتح کے آثار نمودار ہوئے۔ مسلمانوں کی پیش قدمی کے آگے اہل طمیسہ پسپا ہونے لگے حتی کہ انہیں ایک قلعے میں گھس کر پناہ لینی پڑی۔ مجاہدین نے اس قلعے کا سخت محاصرہ کرلیا۔
|