Maktaba Wahhabi

183 - 378
رہی ہے کیونکہ یہ ان کے علاقے ہیں جب کہ ہم بلادِ اسلامیہ سے دور ان سے کٹے ہوئے ہیں ۔ تو ہم ایسا کیوں نہ کریں کہ کل ایک جماعت کو پیچھے کمین گاہ میں اسلحہ بند مستعد و چوبند چھوڑ جاتے ہیں ۔ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اور باقی کا لشکر رومیوں سے قتال کرے۔ جب دونوں فریق دن بھر کی جنگ کے بعد تھک کر اپنے اپنے کیمپوں میں چلے جائیں گے تو ہماری یہ مستعد اور تیار فوج ان پر حملہ کر دے گی۔ (جس سے ایک تو وہ یہ سمجھیں گے کہ شاید مسلمانوں کو دارالخلافہ سے تازہ مدد آ پہنچی ہے جو ان کے حوصلوں کے ٹوٹنے کا سبب ہوگا۔ دوسرے ہمارے مجاہد تازہ دم اور وہ دن بھر کی جنگ سے تھکے ماندے ہوں گے۔) اس لیے امید ہے کہ (وہ زیادہ دیر تک ان کے سامنے قدم نہ جما سکیں گے۔ شاید اس طرح) اللہ ہمیں فتح دے دے۔ امیر لشکر نے رائے سن کر اعیانِ صحابہ رضی اللہ عنہ کو جمع کیا اور ان سے مشاورت طلب کی۔ باقی سب نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا۔ پھر یہ طے ہوا کہ اس دست کی کمان سیّدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہوگی۔ اگلے دن طے شدہ تجویز کے مطابق ظہر کے وقت جب رومی اپنے کیمپوں میں آرام کرنے لوٹے تو اس تازہ دم دستے نے یکا یک ان پر حملہ کر دیا۔ رومی اس اچانک حملے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان میں بھگدڑ مچ گئی، اور قدم اکھڑ گئے۔ انہیں اپنی تلواریں بھی سنبھالنے کا موقع نہ ملا۔ مسلمانوں نے انہیں چاروں طرف سے گھر لیا۔ اس حملہ میں بے شمار رومیوں کے ساتھ سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں جرجیر بھی مارا گیا۔ رومیوں کو بدترین شکست ہوئی۔ مقتولوں کی تعداد گنی نہ جاتی تھی۔ امیر لشکر سیّدنا عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ شہر میں اترے، اور اس کا محاصرہ کرکے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کو سبیطلہ سے اس قدر مال ہاتھ آیا کہ اتنا اس سے قبل کسی شہر سے نہ ملا تھا۔ اموالِ غنیمت کو تقسیم کیا گیا تو سوار کے حصہ میں تین ہزار دینار جب کہ پیادے کو ایک ہزار دینار ملا۔[1] غزوۂ افریقہ میں مسلمان بھی اچھی خاصی تعداد میں شہید ہوئے۔ رومی غاصبوں اور استعماریوں پر زبردست فتح پانے کے بعد جنابِ حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ بے پناہ مال
Flag Counter