ذریت طیبہ رضی اللہ عنہم اجمعین
جگر گوشۂ رسول سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ایک انصاری صاحب اپنے بھائی کو اس بات پر ڈانٹ رہے تھے کہ وہ بے حد حیاء کرتے تھے اور سمجھا رہے تھے کہ اتنا بھی حیاء نہ کیا کرو گویا کہ وہ اسے یہ جتوا رہے تھے کہ اسی شدتِ حیاء نے تمہیں یہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحب کی وہ گفتگو سن لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دو بے شک حیاء ایمان میں سے ہے۔‘‘[1]
حیاء، یہ وہ صفت خلقیہ ہے جو انسان کو ہر قابل ستائش فعل پر آمادہ کرتی ہے اور اسے ہر قابل ملامت فعل سے باز رکھتی ہے۔ حیاء نفس محمودہ کی صفات میں سے ہے۔ جس میں بھی حیاء پیدا ہو جاتا ہے، وہ قبیح اعمال سے پیچھے ہٹ جاتا ہے اور انہیں ترک کر دیتا ہے۔ بلاشبہ حیاء نفس کی سب سے بڑی صفت ہے اور یہ کریم و شریف انسانوں کی صفت لازمہ ہے۔ بلکہ حیاء تو اہل فضل ومروت کی امتیازی اور سب سے کھلی نشانی ہے۔ اے میرے بھائیو اور بہنو! آج ہم
|