Maktaba Wahhabi

180 - 378
اسلامی سرحدات کی حفاظت میں اپنا عظیم کردار ادا کرنا کیسے بھول سکتے تھے۔ کیونکہ یہ واجباتِ ایمانیہ و دینیہ کا تکملہ ہے۔ یہ جہاد مومن کا تاجِ آبرو اور اس امت کی سیاحت ہے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے جہاد فی سبیل میں بے پناہ صبر کرنے، ڈٹنے اور حوصلہ ظاہر کرنے کی بابت نہایت عظیم اور بلند مثال پیش کی۔ اپنا فرض نبھایا اور خوب نبھایا اپنی ذمہ داری ادا کی اور ادا کرنے کا حق ادا کر دیا۔ ہماری اس بات کی دلیل دور عثمانی میں آپ کا سر زمین افریقہ پر جہاد کرنا اور خراسان و طبرستان کی فتوحات میں دشمنوں کے ہوش اڑا دینے والے بہادر کی طرح شریک ہونا ہے۔ جب کہ دورِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں آپ نے غزوۂ قسطنطنیہ میں شرکت کی۔ عظیم بہادروں کی تاریخ ایسے ہی داستان سے مرقوم ومعمور ہوتی ہے۔ آیے! ذیل میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شجاعت کے چند واقعات پڑھ کر دل ودماغ اور روح و ایمان کو تازہ کرتے ہیں ۔ افریقہ کی فتح میں شرکت: ’’ریاض النفوس‘‘ کی روایت ہے کہ والی مصر سیّدنا عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر غزوۂ افریقہ کی اجازت طلب کی۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بابت سیّدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا اور پوچھا، اے ابن مخرمہ! تمہاری کیا رائے ہے؟ (کیا افریقہ جہاد کے لیے لشکر روانہ کیے جائیں یا نہیں ؟) ابن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے ہاں میں جواب دیا۔ تب سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تم آج ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے صحابہ کو جمع کرکے ان سے اس بابت مشورہ کرو، جس بات پر وہ سب اتفاق کرلیں ، میں بھی اس پر عمل کرلوں گا۔ یا زیادہ کی رائے جس طرف ہوئی، وہ کر لوں گا۔ جاؤ علی، طلحہ، زبیر اور عباس وغیرہ کو بلا لاؤ…۔‘‘ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد میں اکابر صحابہ سے مشورہ کیا۔ سب نے جہادِ افریقہ کی موافقت کی۔ سوائے ابو اعور سعید بن زید کے کسی نے بھی اس رائے سے اختلاف نہ کیا۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں بعد میں بلا کر ان سے اختلاف کی وجہ دریافت کی۔ وہ بولے میں نے
Flag Counter