غَصْنَانَ اَصْلُھُمَا بِرَوْضَۃِ اَحْمَدَ
لِلّٰہِ دَرُّالْاَصْلِ وَالْغَصْنَانَ
’’فاطمہ بتول اور ان کے خاوند اور جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں نواسے کیا ہی عزت و شرافت کے مالک ہیں ، یہ باغِ محمدی کی دو شاخیں ہیں ، ان دونوں شاخوں اور ان کی جڑ کی خوبی اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘
جنابِ حسین رضی اللہ عنہ نے حیاتِ مستعار کے چھٹے برس میں قدم رکھا ہی تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر رب رحمان کی جوارِ رحمت میں جابسے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سیرت و کردار کے اس عظیم مقام پر متمکن ہوئے جہاں تک پہنچنے سے بڑے بڑے عظیم لوگ بھی رہ جاتے ہیں جس کا کچھ اندازہ آپ کی عظیم قربانیوں اور شجاعت و شہادت کے ذکر سے ہوگا۔ آپ نے جہاد فی سبیل اللہ کے کسی میدان سے بھی راہِ فرار اختیار نہ کی۔ آپ نے جہاد میں بھر پور کردار ادا کیا۔ دین خداوندی کی نصرت و حمایت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بے حد بلند نمونہ پیش کیا۔ آپ بھلا میدانِ جہاد سے کیونکر پیچھے رہ سکتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نانا کے نواسے تھے جن کا شوق شہادت عظمتوں کی اس بلندی تک پہنچا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُ اَنِّی اَغْزُو فِیْ سَبِیلِ اللّٰہِ فَاُقْتَلُ ثُمَّ اَغْزُو فَاُقْتَلُ ثُمَّ اَغْزُو فَاُقْتَلُ)) [1]
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! میری تمنا ہے کہ میں راہِ خدا میں جہاد کے لیے نکلوں اور مارا جاؤں ، پھر (زندہ کیا جاؤں اور) نکلوں اور مارا جاؤں پھر (زندہ کیا جاؤں اور) نکلوں اور مارا جاؤں ۔‘‘
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ جس تقوی و ورع، زہد و عبادت اور علم ومعرفت کے مالک تھے ان سب کے ہوتے ہوئے آپ اعلائے اسلام کے ساتھ محاربہ اور دین کی نشر و اشاعت کے لیے
|