سیّدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ خلافت فاروقی میں سخت قحط پڑا، زمینیں بنجر اور فصلیں برباد ہوگئیں اور کھیتوں میں غبار اڑنے لگا۔ لوگ دانے دانے کو ترس گئے۔ امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ساتھ کھلی فضا میں نماز استسقاء ادا کرنے نکلے تاکہ رب کے حضور بارش کے لیے رو دھو کر دعا کریں ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر جناب عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا داہنا ہاتھ تھاما اور اس کو فضا میں بلند کرکے یہ دعا مانگی:
’’اے اللہ! ہم تیرے پیغمبر کے وسیلہ سے دعا مانگا کرتے تھے تو آپ ہم پر بارش برساتے تھے آج (جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نہیں رہے تو) یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں ۔ ہم ان کے وسیلے سے آپ سے دعا مانگتے ہیں ۔ آپ ہم پر بارش برسائیے۔‘‘ [1]
علمائے کرام کے ہاں جنابِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو ’’نیک آدمی کے توسل سے دعا مانگنا‘‘ کہتے ہیں یعنی کسی نیک آدمی سے اس بات کی التجاء کی جائے کہ وہ دعا مانگے۔
پھر ویسا ہی ہوا۔ ابھی مسلمان دعا مانگ کر گھروں کو نہ پہنچے تھے کہ بارانِ رحمت برسنے لگا اور ہر طرف جل تھا ہو گیا۔ لوگوں کے چہرے کھل اٹھے، اداسی شادمانی میں بدل گئی۔ سوکھی زمین جی اٹھیں ، سبزہ نے سر اٹھایا اور ہر طرف ہریالی اور سبزہ لہرانے لگا۔ جنابِ عباس رضی اللہ عنہ کے توسل سے مانگی جانے والی دعا کو پل بھر میں شرفِ قبولیت ملنے پر سب مسلمانوں نے آپ کو گلے لگایا اور ان الفاظ کے ساتھ مبارک دی: ’’اے حرمین کے ساقی! تجھے مبارک ہو۔‘‘[2]
|