لشکر اسلام کے ساتھ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ راہِ خدا کے مجاہد اور دین اسلام کے مقاتل بن کر قسطنطنیہ کے میدان میں جا پہنچے۔ آپ کے سامنے بلادِ یورپ کو فتح کرنے اور وہاں اسلام کے ترانے بلند کرنے کے عطیم مقصد کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ پھر آپ اپنا بھر پور ایمانی، روحانی اور جذبۂ شہادت سے معمور کردار ادا کرکے سلامت باکرامت مدینہ منورہ لوٹ آئے۔
واقعۂ کربلا:
کوئی حرج نہیں جو ہم جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ کربلا کو بیان کریں ۔ آنے والی نسلوں کو بتلائیں کہ میدان کربلاء میں نواسۂ رسول جگر گوشۂ بتول نے کس ہمت، جرأت، شجاعت، بسالت، بطولت اور دلیری کے ساتھ ڈٹ کر دکھایا۔ وہ بھی کیل کانٹے سے لیس اور آلاتِ جنگ و قتال سے مسلح کسی لشکر جرار کے ساتھ نہیں ، بلکہ گنتی کے چند سر فروشوں ، نہتے جانبازوں اور بے خان ومان مجاہدوں اور فدائیوں کے ساتھ ڈٹ کر دکھایا اور دنیا کو قیامت تک کے لیے یہ درس عبرت دے گئے کہ حق پر جمنے کے لیے مومن دل چاہیے ناکہ تیر و تفنگ اور آلاتِ جنگ کا انبار اور جنگجو جاں بازوں کا لشکر جرار۔
واقعہ کربلا میں آپ کا دست وبازو بننے والوں کی تعداد بہتر سے بھی متجاوز نہ تھی، جو ظلم وجور کے پانچ ہزار سے زائد کوفی نمائندوں کے سامنے شہادتوں کی مسندیں سجائے میدانِ قتال میں اترے جن کی جبینوں پر شوقِ شہادت کی لکیروں کی چمک میں خوف، بزدلی، کمزوری، پست ہمتی، بے حوصلگی اور تردد و تذبذب کا نام و نشان تک نہ تھا۔
چنانچہ جناب حسین رضی اللہ عنہ نے آلِ بیت رسول کی عظمتوں اور رفعتوں کی لاج رکھی اور خاندانِ نبوت و رسالت کے آئینہ شجاعت و وقار پر خراش تک نہ آنے دی اور بڑی شان کے ساتھ شہادت پاکر رب کے حضور سرخرو ہوکر پہنچ گئے۔ رضی اللّٰہ عنہ وارضاہ
امام احمد رحمہ اللہ نے ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کسی ایک سے فرمایا: ’’آج میرے پاس گھر میں ایک ایسا فرشتہ آیا ہے جو اس سے قبل نہیں آیا اور اس نے (مجھ سے یہ) کہا ہے کہ: یہ تیرا
|