بیٹا حسین مقتول ہوگا۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس سر زمین کی مٹی بھی دکھلا سکتا ہوں جہاں یہ شہید ہوں گے۔ پھر اس فرشتے نے سرخ رنگ کی مٹی نکال کر دکھلائی۔‘‘[1]
پھر وہی ہوا جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی تھی۔ چنانچہ ۶۱ ھ میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سر زمین عراق پر شہید کر دیے گئے۔ آپ کو شہید کرنے والے سازشیوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا شرم نہ آئی، یہ ظالم دیکھ لیں گے کہ کس طرف جا لوٹتے ہیں !!!!
جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں نے آلِ بیت رسول کی حرمت پامال کرتے ہوئے آپ جیسے سراپا عدل و دیانت صحابی رسول کے ساتھ عذر و خیانت کا ارتکاب کیا، اور ظلم و عدوان کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے پہلے آپ کا محاصرہ کیا، پھر شہید کر دیا۔
جناب حسین رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ اہل کوفہ اپنی تمام باتوں سے مکر گئے ہیں اور انہوں نے آپ کی مدد کرنے کے وعدہ پر کوفہ آنے کی دعوت دینے کے بعد اب آپ کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور اب آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں تو آپ نے محاصرین سے تین باتوں کا مطالبہ کیا کہ یا تو آپ کو واپس جانے دیں یا پھر جہاد کے کسی محاذ پر جانے کا رستہ دے دیں یا پھر یزید کے پاس شام ہی جانے دیں ۔ لیکن محاصرین نے آپ کی ہر بات ماننے سے انکار کر دیا۔ آپ کے سامنے دو باتیں رکھ دیں ۔ (۱) یا تو آپ گرفتاری دے دیں (۲) یا پھر قتال کریں ۔ آپ نے گرفتار کی ذلت کو آلِ بیت رسول کی حرمت و شرافت کے سخت خلاف دیکھتے ہوئے لڑ کر شہید ہو جانے کو ترجیح دی۔ چنانچہ ان نامرادوں نے آپ کو اور آلِ بیت کرام کے چند دوسرے عظیم فرزندوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔
شہادت کے بعد آپ کے بدبخت قاتل نے آپ کا سر مبارک قلم کرکے اسے مجرم عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا۔ اس گستاخ نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کے ساتھ آپ کے چہرۂ مبارک پر ضربیں لگانے لگا اور کبھی اس چھڑی کو آپ کے منہ میں داخل کرتا اور کہتا: ’’ان کے دانت بے حد خوبصورت ہیں ۔‘‘ اس گستاخی اور شوخ چشمی کو دیکھ کر سیّدنا انس بن
|