بالآخر نصرتِ خداوندی آپہنچی مجاہدین قلعہ میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے اور قلعہ فتح ہوگیا۔ قلعہ میں موجود بے شمار کفار اشرار معاندین اسلام مجاہدین کی تلواروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو زبردست فتح نصیب ہوئی۔ [1] طبرستان میں بلند پایہ فتوحات حاصل کرنے کے بعد مجاہدین اسلام فتح کے پھریرے لہراتے سیّدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دارالخلافہ لوٹ آئے۔
متعدد تاریخی روایات بتلاتی ہے کہ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما نے خلافت عثمانی کے دور میں کئی غزوات میں حصہ لیا اور جرأت وشجاعت کی نئی داستانیں رقم کیں ۔ سبطین رسول نے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہونے والی دورِ عثمان کی جنگوں میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ یہ بات علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ جیسے بے پناہ بہادر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت ہائے جگر سے کیونکر بعید ہوسکتی ہے۔ آلِ بیت رسول کے ان عظیم سپوتوں کے لائق ایسے ہی نمایاں کارنامے تھے۔ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما نے دین اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے ہر میدان میں قدم رکھا۔ حتی کہ میدانِ قتال میں بھی سر ہتھیلیوں پر رکھ کر بڑی بے جگری کے ساتھ اعدائے اسلام کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے۔ راہ میں اپنی ساری صلاحیتوں ، قوتوں اور جذبوں کو جھونک دیا۔ بے شک یہی بہادریوں کے قصے، جرأتوں کے نشان، ہمتوں کے کوہِ گراں اور حوصلوں کے واقعات ہیں ، یہ قربانیوں کی وہ تربیت ہے جو حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہ کی مبارک اور پاکیزہ زندگیوں سے تعبیر ہے۔
یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ یہ شہادت کی وہ بے پناہ محبت ہے جو قیادت و سیادت، اور ریاست و امارت کی پہلی اور سب سے بڑی نشانی ہے اور یہی عظیم لوگوں کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔
غزوۂ قسطنطنیہ:
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا دورِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں یہ انتہائی ناقابل فراموش کردار ہے۔ آپ نے اس عظیم غزوہ میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جسم و روح کے ساتھ حصہ لیا۔ چنانچہ ۵۰ ھ میں
|